ایک نیوز: لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں سے تحقیقات کیلئے قائم جے آئی ٹی کی تشکیل پرسوال اٹھادیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں3 رکنی فل بینچ نے عمران خان ودیگرکی حکم امتناعی کی درخواستوں پرسماعت20اپریل تک ملتوی کردی ۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب محمد شان گل اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب چوہدری خلیق الزمان لاہورہائیکورٹ پیش ہوئے۔رہنماتحریک انصاف فواد چودھری اور مسرت چیمہ بھی کمرہ عدالت میں موجود رہیں۔
لاہورہائیکورٹ کے فاضل جج کاکہنا تھا کہ کیا جے آئی ٹی کی تشکیل قانونی دائرہ اختیار میں ہوئی۔ ابھی تو تفتیش کاآغاز ہوا ہے کیا اس سٹیج پر عدالت دہشت گردی کی دفعات کا جائزہ لے سکتی ہے۔پراسیکیوشن کااپنا سکوپ ہے اور وہ اس میں اپنی قانونی رائے سکتے ہیں۔اس کیس میں صوبائی حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دے رکھی ہے۔جے آئی ٹی میں چند ممبران کاتعلق وفاق سے ہے۔وفاقی حکومت کےجن ممبران کوجے آئی ٹی میں رکھا گیا ان کی اجازت کس سے لی گئی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیئے کہ دہشت گردی ایکٹ کےتحت حکومت کو وفاقی افسروں کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کااختیار ہے۔
واضح رہے کہ رہنما تحریک انصاف فواد چودھری سمیت دیگر رہنماوں نے جےآئی ٹی کی تشکیل کو چیلنج کررکھا ہے۔
رہنماتحریک انصاف فواد چودھری کا درخواست میں موقف تھا کہ جتنے مقدمات بنائے گئے ان میں غیرقانونی طور پر دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔مقدمات میں بھونڈے اور بےبنیاد الزامات لگائے گئے۔سپریم کورٹ عام مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات لگانے سے منع کرچکی ہے۔
درخواست کے مطابق ایک ہی وقوعہ کے ایک سے زائد مقدمات درج کئے گئے۔پولیس نے ہماری درخواستوں پر مقدمات درج کرنے سےانکار کردیا۔آئی جی پنجاب نےخود تسلیم کیاتھا کہ ہمارے 3500لوگوں کو مقدمات میں ملوث کیاگیا۔ملک میں کبھی سیاسی جماعتوں کےورکروں کےساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا جو اس حکومت میں ہوا۔اسلام آباد میں ہمارے سات سالہ کارکن کو پکڑ کرمقدمہ بنا دیاگیا۔