سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے:چیف جسٹس پاکستان

سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے:چیف جسٹس پاکستان
کیپشن: ایک ہی روز میں انتخابات،سپریم کورٹ نےتمام سیاسی رہنماؤں کوطلب کرلیا

ایک نیوز:ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ امید کرتے ہیں حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو پھر اس کے نتائج اچھے نہیں ہونگے۔وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گےجبکہ سپریم کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کو موخرکرنے کاعندیہ دیتے ہوئےسینئر سیاسی لیڈرشپ کو طلب کرلیا۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرانے سے متعلق درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل تھے،اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان روسٹرم پر آگئے اور دلائل دینا شروع کردیے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قرآن پاک کی آیات پڑھ کر سنائیں، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اللہ ہمیں صحیح فیصلوں کی ہمت دے اور نیک لوگوں میں شامل کرے ، جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب بتائیں، وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کیا ہے،یہ کیس بہت طویل ہوگیا ہے،اٹارنی جنرل! آپ نے بہت سی رپورٹس فائل کی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے،حکومت نے اپنا ایگزیکٹو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑھیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی،اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا،کیا الیکشن کیلئے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہاکہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے،حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہئے،مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں معاملہ پہلے منظوری کیلئے بھیجا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قراردادکیسے پاس کر سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہاکہ گرانٹ کے بعد میں منظوری لینارسکی تھا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے،کیا کبھی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری لینے میں حکومت کو شکست ہوئی ؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فنڈز کے حوالے سے عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جا رہا ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو پیغام آپ دینا چاہ رہے ہیں وہ سمجھ گیا ہوں۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو الیکشن ہوجائیں گے؟ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوج نے انتخابات کے مقررہ وقت کے مطابق آپریشنز شروع کیے تھے۔ 

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول حکومت کی مدد کو آتی ہے؟

اٹارنی جنرل نےکہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں۔ 

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا 2018 کے انتخابات میں بنیادی حقوق معطل تھے؟ وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کا اختیار کیوں استعمال نہیں کر رہی؟کیا آئین بالادست نہیں ہے،افواج نے ملک کے لیے جانوں کی قربانیاں دی ہیں،افواج پاکستان کا تو سب کو شکر گزار ہونا چاہیئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ 27 مارچ کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی 4 اپریل کو فیصلہ آیا،پہلے 4/3 کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا،بائیکاٹ ہوا لیکن کسی نے سکیورٹی کا مسلہ نہیں اٹھایا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری درخواست پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی۔ 

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری دفاع بھی موجود تھے،ملاقات میں افسران کو بتایا تھا دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا،سب کو بتایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے،الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں،الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں الیکشن کروالیں گے،اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی،الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے،وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے،کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے،ٹی وی پر سنا ہے وزراء کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ امید کرتے ہیں حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو پھر اس کے نتائج اچھے نہیں ہونگے،تین اہم شخصیات مجھ سے پرسنل ملاقات کرنے کے بجاۓ آج اوپن کورٹ میں آ جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل بلاول اور آج وزیراعظم سے ملا تھا،کوشش ہے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو،ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں،بلاول آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے،معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے،تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہورہی ہیں،امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے،دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں،عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے،منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے،14 مئی قریب آ چکا ہے،سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا،5 دن عید کی چھٹیاں آ گئی ہیں،میرے ساتھی ججز کہتے ہیں 5 دن کا وقت بہت ہے۔

شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کبھی ایک وجہ سے نافذ نہیں ہو سکا کبھی دوسری وجہ سے،عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد ضروری ہے،لوگ کنفیوز اور ٹینشن میں ہیں،عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے درخواست دائر کی ہے، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چائیے،انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی،صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثرانداز ہوں گی۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ جب بحث ہورہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے 4/3 پر ذور دینے کا کہا،اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے ان کو یہ مؤقف اپنانے سے روکا۔

وکیل شاہ خاور نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہوجائیں تو آئیڈیل حالات ہوں گے۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جاسکتی،یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا،سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا، 90دن کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے۔ آئین کے مطابق 90دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں۔آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے۔ جس میں فیصلے عوام کرے گی۔آپکی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں۔عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا۔حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی۔ عدالت ایک دن انتحابات کرانے کی درخواستوں پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیتی ہے؟سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کررہے ہیں۔نگران حکومت 90دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اُٹھتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو مہلت دے۔

عدالت نے فیصل چودھری کو روسٹرم پر بلا لیا،چیف جسٹس پاکستان نےریمارکس دیئے کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے؟

فیصل چوہدری نے کہا کہ سراج الحق زمان پارک آئے اگلے دن ہمارا سندھ کا صدر گرفتار ہو گیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا،قوم کی تکلیف اور اضطراب کا عالم دیکھیں۔

فیصل چوہدری نے کہا کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے آپ سے بہت امید ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی قیادت سے ہدایات لیکر عدالت کو آگاہ کریں،ممکن ہے عدالت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو طلب کرے۔

ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے،وزیر داخلہ ہر گھنٹے بعد عدالت کو دھمکیاں دیتا ہے،وزیر داخلہ کہتا ہے جو مرضی کر لے 14 مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے،کیا آپ سڑکوں پر تصادم چاہتے ہیں؟ سیاسی عمل آگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہوسکتا ہے۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ دونوں فریقین کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو ابھی طلب کرنا درست ہو گا۔ 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام سیاسی قائدین اسلام آباد میں نہیں ہیں۔ 

چیف جسٹس  پاکستان نےریمارکس دیئےکہ کچھ سربراہان نے غیر سنجیدہ گفتگو کی تھی،آپ نے آج سنجیدہ موقف اپنایا،سیاسی جماعتوں کے نامزد رہنماؤں کو طلب کریں گے،مذاکرات کا عمل جلد مکمل نہ ہوا تو عدالتی حکم پر عمل کروائیں گے،سیاسی جماعتیں اپنے نمائندے مقرر کر کے کارروائی کا حصہ بنے۔

‏جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ وزیرِاعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونا لازمی ہے، اٹارنی جنرل صاحب ہم آپکو بار بار کہہ رہے ہیں سمجھنے کی کوشش کریں معاملہ اب بہت سنجیدہ ہوگیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے وزارت دفاع کا جواب مسترد کر تے ہوئے کہاکہ وزارت دفاع کا جواب تسلی بخش نہیں ہے۔‏الیکشن کمیشن کو کیوں لگتا ہے کہ ماضی کی نسبت اب صورتحال خراب ہے، جب بےنظیر بھٹو کی شہادت ہوئی اُس وقت بھی الیکشن کروائے گئے تھے۔

‏جسٹس اعجاز الاحسن اٹارنی جنرل پر برس پڑےکہا کہ آئرلینڈ میں جنگ کا سماں تھا لیکن وہاں ایک دن کے لئے بھی انتخابات میں تاخیر نہیں کی گئی، ہمیں آئین کے ذریعے بتائیں کہ کیا الیکشن میں تاخیر کی جا سکتی ہے؟کس قانون کے تحت سپریم کورٹ یہ کہہ دے کہ الیکشن اِس سال نہیں آئندہ برس ہونگے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے، ‏پچھلے سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی بھی تحلیل ہو چکی تھی۔

سپریم کورٹ نے سینئر سیاسی لیڈرشپ کو طلب کرلیا،بعدازاں عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹسسز جاری کرتے ہوئے سماعت کل 11:30 بجے تک ملتوی کردی۔

 خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم قومی اسمبلی نے فنڈز کے اجرا کی قرارداد مسترد کردی۔