ایک نیوز :خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں پاک افغان سرحدی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندوں کی پسپائی کے بعد اب زندگی معمول پر آگئی ہے اور وادی کیلاش کی جانب غیر ملکی سیاحوں نے بھی رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔
مذکورہ علاقے کلیئر ہونے کے ساتھ ہی سرحدی علاقوں میں سکیورٹی خدشات کے باعث بند کیے گئے اسکولوں کو بھی دوبارہ کھول دیا گیا ہے اور تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوگئی ہیں۔ گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر لوئر چترال، سربراہ چترال اسکاؤٹ اور ڈی پی او نے ضلعے کے مقامی سیاسی، سماجی و مذہبی رہنماؤں کو سیکیورٹی صورت حال خصوصاً حالیہ حملوں کے بعد کے حالات پر بریفنگ دی۔
ڈپٹی کمشنر کاکہنا تھا کہ اب حالات مکمل طور پر نارمل ہیں اور طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے جس کے بعد دہشتگرد افغانستان واپس بھاگ گئے ہیں۔ افغان سرحد کے ساتھ سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے اور کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ 6 ستمبر کی صبح افغانستان سے عسکریت پسندوں نے لوئر چترال میں سیکیورٹی پوسٹوں پر حملہ کیا تھا۔ دہشتگردوں نے ایک وقت میں 2 الگ مقامات سے حملے کیے۔ کیلاش وادی کے گاؤں بمبوریت کے دورافتادہ علاقے استوائی میں جبکہ دوسرا جنجیرات کوہ میں کیا تھا۔ سیکیورٹی فورسز نے دونوں حملوں کو ناکام بنا دیا جبکہ تازہ دم دستے بھی پہنچا دیے گئے۔ ساتھ پورے علاقے میں طویل آپریشن کرکے کلیئر کیا گیا۔ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے دوران 5 سیکیورٹی اہلکار شہید اور 3 زخمی ہو ئے تھے جبکہ 16 دہشتگرد ہلاک کر دیے گئے۔
ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد علی خان کاکہنا تھاکہ طالبان حملے کے بعد چترال کے سرحدی علاقوں میں زندگی معمول پر ا گئی ہے جبکہ کیلاش ویلی سمیت دیگر سیاحتی علاقے سیاحوں کے لیے کھلے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں سیاحوں نے چترال کا رخ کیا ہے جو کیلاش اور دیگر علاقوں میں گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضلعی ان انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ لسٹ کے مطابق چترال کے تمام علاقے کھلے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 17 سمتبر کو 1600 سیاحوں نے چترال کا رخ کیا جن میں 22 غیر ملکی سیاح بھی شامل تھے۔