ایک نیوز :سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پربینچزبنانے سے متعلق حکم امتناع ختم کردیا اور ایکٹ میں شامل دیگر معاملات پر فل کورٹ سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے عدالتی دن پر فل کورٹ کی سربراہی کی، سپریم کورٹ کے 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کی جس کو براہ راست ٹی وی پر دکھایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کہ انہیں سندھ طاس معاہدے سے مطلق مقدمے کے حوالے سے بیرون ملک جانا ہے۔ درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کو عدالتی سوالات کے جوابات دینا ہیں۔درخواست گزار کے وکلاء نے تحریری جواب جمع کروانے کیلئے دو روز کی مہلت مانگی ہے
درخواست گزار کے وکلا نے استدعا کی کہ مائی لارڈ سماعت ستمبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلے کیس کی سماعت 2اکتوبر تک ملتوی کی پھر وکلا کے کہنے پر سماعت 3اکتوبر تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فریقین کے وکلا 25ستمبر سے پہلے سوالات کے جوابات جمع کرادیں۔سپریم کورٹ کے 2سینئر ججز جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس سردار طارق کی مشاورت سے بینچ قائم کروں گا ۔فل کورٹ سے متعلق تمام درخواستیں منظورکرتے ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی۔ اور عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف اپیلوں پر فل کورٹ بنانے کی درخواستیں منظور کر لیں۔سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ از خود نوٹس سے متعلق اپنے اختیارات چھوڑنے کو تیار ہیں۔ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو یا مفاد عامہ کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھایا جائے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ نے سماعت کی ۔جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد وحید فل کورٹ کا حصہ ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو معطل کیا تھا۔ عدالت نے اس ایکٹ کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت قرار دیا تھا۔
وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں جواب جمع کرا دیا:
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس انڈ پروسیجرایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کردی۔
وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے نیچے قانون سازی کر سکتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کوئی اختیار سپریم کورٹ کا واپس نہیں کیا گیا۔میرٹ پر بھی پارلیمنٹ قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔
کیس پر سماعت کا آغاز:
سماعت کے آغاز پر خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تاخیر کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ ہم فل کورٹ اجلاس میں تھے۔ پائیلٹ پراجیکٹ کے طور پر کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے۔ نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں۔ عدالتی کارروائی سرکاری ٹیلی وژن میں براہ راست نشر کرنے کی اجازت دی ہے۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ اس کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بننے کی درخواست منظور کرلی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس درخواست پر فل کورٹ بنا دیا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کیس پہلے سنا کچھ نے نہیں سنا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال تھا کیا جنہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں؟ پھر سوال تھا کہ کیا سینئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے؟ ہمیں مناسب یہی لگا کے فل کورٹ بنایا جائے۔
وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنارکھے تھے۔ پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں؟ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں۔ آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں۔ آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟
خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے۔ رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب آپ سوال نوٹ کرتے جائیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا۔ آئین اور قانون دونوں کا لگ گیا اس پر آپ کی کیا تشریح ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بنچ کی تشکیل سے متلعق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور؟ کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بنچ بنائے؟ پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے موکل کی کوئی ذاتی دلچسپی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں؟
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس پر مطمئن ہیں کہ بنچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو۔ آپ اس پر مطمئن نہیں کہ چیف جسٹس دو سنئیر ججز کی مشاورت سے فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہوں آپ نہیں چاہتے۔ کہا ہے آپ صرف سوال نوٹ کریں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بے اخیتار سا نہیں کردیا گیا۔
خواجہ طارق رحیم کے جواب دینے پر چیف جسٹس نے پھر ٹوک دیا:
چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ آپ پھر جواب دینے لگ گئے ہیں۔ میں نے صرف کہا کہ ابھی صرف نوٹ کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا صرف قانون بنانے سے سپریم کورٹ کا اختیار متاثر ہوا یا چیف جسٹس کا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب میں یہی سمجھا کہ آپ مطمئن ہی پرانے ماڈل سے ہیں۔ آپ مطمئن ہیں کہ چیف جسٹس اکیلے ہی روسٹرم کے ماسٹر ہوں؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا اس طرح کے اختیارات پر سادہ قانون کی بجائے آئینی ترامیم نہیں ہونی چاہئیں؟ جسٹس منصور شاہ نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب ایک سادہ سا سوال میرا بھی ہے۔ یہی پریکٹس اینڈ پروسیجر بنالیں تو ٹھیک ہے۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہی کام پارلیمنٹ کرے تو وہ غلط ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے ساتھیوں سے بھی درخواست کروں گا بشمول میرے ہم سب آپ کے لیے مشکل بنا رہے ہیں۔ آپ سیکشن 5 کو آئینی سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟ چیف جسٹس۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ میں سوال آسان بنا دیتا ہوں۔ آپ اپنے مؤکل کے لیے اپیل کا حق چاہتے ہیں یا نہیں؟
خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک اچھی چیز اگر غیرآئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔ سیکشن 5 غیرآئینی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہیں تو ہمیں سوالات کے تحریری جوابات دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کا سیکشن فور 1956 کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیا گیا، کیا اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میرا بھی ایک سوال اپنی فہرست میں شامل کر لیں، اگر 17 جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں تو ٹھیک ہے پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے؟ آپ کا پورا کیس یہی ہے نا یہی ساری بحث آپ کر رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، پارلیمنٹ کی تضحیک نہیں کر رہا، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں۔ میں اپنے ساتھی ججز سے درخواست کررہا ہوں، آپ ہماری مدد کیلئے آئے ہیں۔ اگر ہرطرف سے سوالات کی بمباری ہوگی تو کیس نہیں چل سکے گا۔ آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس فوجی آمر کا ایک قانون تھا، کیا فوجی آمر کا قانون درست ہے یا پارلیمنٹ کی کی گئی قانون سازی درست ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے صرف یہ بتادیں پریکٹس اینڈپرویسجر آئینی ہے یا غیر آئینی؟
خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیے کہ اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون غیرآئینی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرسکتا ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ بیرونی جارحیت کے خطرات کو روکنے کیلئے عدلیہ کی خود مختاری کا تصور ہے۔ عدلیہ کی بیرونی عناصر سے آزادی اہم ہے تو اندرونی آزادی بھی اہم ہے۔ پارلیمنٹ نے اس قانون سے اندرونی آزادی کو فوکس کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا عدلیہ کی اندرونی آزدای کا معاملہ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے لیے احترام ہے مگر کیا یہ کوئی حل ہے؟
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات میں کسی اور کی مداخلت ہوگی تو یہ سپریم کورٹ نہیں رہے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ ہر سوال کا جواب دینے لگ جاتے ہیں۔ ہم یہاں آپس میں بحث کرنے نہیں بیٹھے۔ کئی قوانین مجھے بھی پسند نہیں مگر میں نے حلف اُٹھایا ہے۔ حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق کام کروں گا ہم نے اس کیس میں سوموٹو نوٹس نہیں لیا۔ ہم پر اتنا بڑا حملہ ہوتا تو ہم کئی معاملات پر سوموٹو لے چُکے ہوتے۔ آپ بار بار ذاتی رائے دیتے ہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ آرٹیکل 184/3 پر بات کریں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ قانون عوامی مفاد کے لیے بنایا گیا؟ چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کیا کہ ہمارے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے یہاں آپ رونما ہوئے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ میں تو پھر آپ کی درخواست دس سال نہ لگاؤں تو آپ کیا کریں گے؟ آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے مگر آرٹیکل 184/3 کے تحت دیکھیں گے۔ آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار دو سینئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا۔ اس بات سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟ پارلیمنٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا۔ باہر سے تو کوئی نہیں آیا چیف جسٹس نے تو دو سینئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں۔ آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر کے لیے ہو سکتا ہے۔ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے۔ ہم سوئے رہیں ارجنٹ کیس بھی مقرر ہی نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے؟ عوام پارلمینٹ کے ذریعے ہمیں کہیں کہ وہ کیس 14 دن میں مقرر کریں تو کیا وہ غلط ہو گا؟
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ لفظ قانون اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کے درمیان ایک تفریق ہے۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ پریکٹس اینڈ پروسیجر کو کس کیٹگری میں رکھیں گے؟ وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیے کہ یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے۔ پارلیمنٹ چیف جسٹس کی پاور کو خود ریگولیٹ نہیں کرسکتی۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے قانون کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا۔ اپیل کا حق بنیادی ہے یا بنیادی حقوق کے خلاف ہے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے اختیارات کی بات کی،سپریم کورٹ کے اختیارات کی نہیں۔
جس پر امتیاز صدیقی نے سپریم کورٹ کے 10 رکنی بنچ کے فیصلے کا حوالہ دیدیا۔ عدالت نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔
اٹارنی جنرل کے دلائل:
سماعت میں مختصر وقفے کے بعد دوبارہ آغاز پر اٹارنی جنرل فل کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ مجھے 30 منٹ بات کرنے کی اجازت دی جائے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ درخواستیں کوئی عوامی مفاد کا معاملہ اٹھا رہی ہیں؟ میرے فاضل دوستوں نے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کی۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا۔ یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے ہے۔ قانون کےذریعے سارے اختیارات اس عدالت کے اندر ہی رکھے گئے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں۔ اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیدیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1926 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973 کے آئین میں عدلیہ کو اس لیے آزاد بنایا گیا ہے۔ 1973ء کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان میں سے ہٹایا نہیں گیا۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ میں آرٹیکل 191 کی طرف جاؤں گا میں بتاؤں گا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟ آپ نے درخواست قابل سماعت نہ ہونے پر شروع کی تھی وہ مکمل کریں۔ آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نقاط پر بات شروع کر دی۔ ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کر دیا جائے۔ یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے۔ ہمارے پاس اس معاملے پر ہائی کورٹ سے کم اختیارات ہیں۔
چیف جسٹس کی اٹارنی جنرل کو 184/3 پڑھنے کی ہدایات
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کر سکتی ہے اور ہم اپیل کے فورم پر اسے سن سکتے ہیں۔ 184/3 ہمیں مفاد عامہ اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔
حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ انصاف تک رسائی یقیناَ سب کا حق ہے۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب میرے بار بار پوچھنے پر درخواست گزار کے وکیل نے قانون کو اچھا کہا۔ کیا اب بنیادی حق کے پیمانے پر یہ درخواست پورا اترتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ اس درخواست کو اسی بنیاد پر خارج ہو جانا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حق کو چھوڑیں مفاد عامہ کا معاملہ ہے یا نہیں یہ بتائیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں معذرت چاہتا ہوں پھر مداخلت کرنا پڑی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مجھے اپنا سوال مکمل کرنے دیں، یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی آئین کے اندر رہ کر کریں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے اختیار کا معاملہ عوامی مفاد کا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ یہ معاملہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ دیکھ سکتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے پہلے سوال پر دوبارہ آتی ہوں۔ یہی قانون اپیل کا حق بھی دیتا ہے فل کورٹ کے خلاف اپیل کہاں جائے گی؟
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال بہت اہم ہے میں بھی یہی سوچ رہا تھا، اپیل تو متاثرہ فریق نے کرنا ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں متاثرہ فریق کون ہوگا؟ ہمیں ایک دو الفاظ میں نہیں پھنسنا چاہیے پورا آئین دیکھنا چاہیے۔ متاثرہ فریق وہی ہوتا ہے جسے کوئی نقصان پہنچا ہو۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ از خود نوٹس سے متعلق اپنے اختیارات چھوڑنے کو تیار ہیں۔ سوموار کو سماعت کے دوران نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو یا مفاد عامہ کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھایا جائے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین سپریم کورٹ احکامات کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیتا تو کیا سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ اس قانون کا دیباچہ اور شق 3 پڑھیں۔جسٹس سید مظاہرعلی اکبرنقوی نے ریمارکس دیئے کہ ایک قانون بات ہی سپریم کورٹ کے اختیارات کی کر رہا ہے تو ہائی کورٹ میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 75/3 میں لفظ قانون اور ایکٹ دونوں استعمال ہوئے ہیں۔جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ اگر یہ دونوں ایک ہی ہیں تو آئین سازوں نے کسی جگہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کسی جگہ قانون کیوں لکھا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آرڈیننس صدر جاری کرتا ہے مگر وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا۔آپ سوال نوٹ کریں جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں خود کو الگ کرتا ہوں۔جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں وہ بیانات ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں۔ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےریمارکس دیئے کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ رولز 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ قانون بن سکتا ہے۔ہر قانون ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میرا صرف ایک سوال ہے کہ درخواست گزاروں سے کونسا حق لیا گیا ہے۔جسٹس سید مظاہرعلی اکبرنقوی نے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل یہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے۔چیف جسٹس نے فل کورٹ بلانے سے انکار کیا اور فل کورٹ نے رولز بنانے سے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ایسے میں پارلیمنٹ کو بھی یہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ رولز کے اندر بھی آئین سے تصادم ہے۔ایک اپیل کیلئے ساٹھ دن دوسرے کیلئے تیس دن ،کیا ان رولز کو چیلنج کیا جا سکتاہے۔2019 سے چار سال گزر گئے فل کورٹ نہیں ہو رہے۔40 ہزار سے مقدمات بڑھ گئے اجلاس نہیں بلایا جا رہا کیونکہ یہ اندرونی معاملہ ہے۔جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا کہ کیا 1980 کے رولز قانون ہیں ؟جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ 1980 کے رولز قانون نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر چیف جسٹس رولز بنانے کیلئے فل کورٹ اجلاس نہ بلائے تو کیا پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ رولز آئین سے متصادم ہیں۔ سول پٹیشن اور سول اپیل سے متعلق رولز آئین سے متصادم ہیں۔اگر چیف جسٹس مقدمات پر بنچ نہ بنائے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔چار سال سے فل کورٹ میٹنگ نہیں ہو رہی تھی۔سپریم کورٹ رولز کو چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس سید مظاہرعلی اکبرنقوی نے کہا ککہ سپریم کورٹ رولز بھی آئین اور قانون کے مطابق ہی بنتے ہیں۔پہلے قانون موجود نہیں تھا اب بن گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارس دیئے کہ 2019میں 40 ہزار کیسز تھے۔2019 میں فل کورٹ میٹنگ ہوئی تھی ۔4 سال بعد دوبارہ میٹنگ ہوئی ۔ہم انصاف کی فراہمی کے لیے عوام سے تنخواہ لیتے ہیں۔جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے 1980 کے رولز آرٹیکل 191 کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتے
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا 6 اعشاریہ 5 ارب ڈالرز کے ریکوڈک کا فیصلہ اچھا تھا۔ہم امریکہ کے فیصلوں کو مثال کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ہم یہ مثال کیوں نہیں دیتے کہ امریکی سپریم کورٹ نے اپنے صدر کو 20منٹس دئیے تھے۔صبح دے اب تک 150 نئے کیسسز دائر ہو چکے ہوں گے۔ہم ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے ہیں ۔لوگوں جیلوں میں مر رہے ییں ۔مجھے افسوس ہو رہا ہے۔ہم غریب لوگوں کی جیبوں سے تنخواہ لیتے ہیں۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ یہ قانون تو ہمارے زیرالتوء مقدمات کا بوجھ بڑھا نہیں دے گا ۔جسٹس سید مظاہرعلی اکبرنقوی نے کہا کہ ماضی سے اس قانون کا اطلاق کرنے سے تو 1947ء کے بعد میں سارے کیس اپیل میں آ جائیں گے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کا 30 دن کا وقت تو گُزر گیا اب تک کتنی اپیلز آئی ہیں۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون معطل تھا اپیل نہیں آئی ۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا ان تمام فیصلوں کے خلاف اپیل آ سکتی ہے جن میں مارشل لاء کو قانونی راستہ دیا گیا ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کہہ رہے ہیں کہ کام اچھا ہے لیکن پارلیمان نہیں ہمیں کرنا چاہیے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہنا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر اپیل کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں تو اپیل کا حق دیا جا رہادیئے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پھر دوسری تیسری اور چوتھی اپیل کیوں نہیں ہو سکتی۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے کہ کونسا دینا ہے یا نہیں فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ہم آج تحفظات دکھا رہے ہیں وہ تو پہلے بھی دکھانا چاہیے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وفاقی حکومت کو تو فل کورٹ کا کہنا ہی نہیں چاہیے تھا۔کیا پارلیمان نے فیصلہ کرلیا کہ سپریم کورٹ کی فل کورٹ کبھی بیٹھ ہی نہیں سکتی ؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمیٹی اگر سمجھ کہ معاملہ انتہائی سنجیدہ تو کمیٹی ایشو کو دیکھ کر لارجر بینچ یا فل کورٹ کا فیصلہ کرے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ فیصلے کیخلاف اپیل والے سوال پر کیا جواب دینگے؟جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ میری نظر میں فل کورٹ فیصلے کیخلاف اپیل کا حق نہیں ہوگا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر نو رکنی بنچ 184/3 میں فیصلہ کرے تو اپیل کا حق تب کیسے برقرار رہے گا؟ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ اس طرح تو عدالت جب چاہے گی جس کا چاہے گی اپیل کا حق ختم کر دے گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس حساب سے پہلے ہی دن آٹھ رکنی بنچ بھی مقدمہ نہیں سن سکتا تھا۔
یاد رہے کہ ایک دن قبل اتوار کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالتے ہی اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔اتوار کو ہی ہدایات نامےمیں شامل تھا کہ سپریم کورٹ کا 15 رکنی فل کورٹ بینچ پیر کو کیس کی سماعت پورا دن کرے گا۔
پس منظر:
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات سے متعلق ہے جسے پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع جاری کیا تھا۔
قبل ازیں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر پانچ سماعتیں ہوئی ہیں۔ 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع جاری ہوا تھا جب کہ دو اور آٹھ مئی اور پھر یکم اور آٹھ جون کو بھی کیس سماعت ہوئی۔
اس قانون کے تحت ازخود نوٹس لینے اور کسی بھی بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی کو دیا تھا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ازخود نوٹس کے فیصلے سے متاثر ہونے والا فریق ایک ماہ میں اپیل کا حق دیا گیا ہے جب کہ متاثرہ فریق کو وکیل تبدیل کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔
مقامی میڈیا کے مطابق ایکٹ میں ون ٹائم پروژن کے تحت سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے علاوہ جہانگیر ترین کو اپیل کا حق مل گیا تھا۔ ازخود نوٹس کے مقدمات میں ماضی کے فیصلوں پر بھی اپیل کا حق دیا گیا ہے۔
جون میں سپریم کورٹ نے شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے فیصلے پر حکمِ امتناع کی درخواست پر سماعت کے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک ہر بینچ غیر قانونی ہے۔ وہ اس بینچ سے الگ ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ہے کیا؟
پاکستان کی پارلیمان نے اپریل 2023 میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری دی تھی۔
بل کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ہو گی۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رُکنی بینچ تشکیل دے گی۔
آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججوں کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔
بل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو محدود کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
چیف جسٹس کی زیرصدارت سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ ختم:
قبل ازیں ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کی زیرِ صدارت سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ ختم ہوگئی ہے۔ فل کورٹ میٹنگ میں کیے گئے فیصلے کھلی عدالت میں سنائے جانے کا امکان ہے۔
اس حوالے سے پی ٹی وی کے چار کیمرے اوپر مہمانوں کی گیلری میں لگائے ہیں جبکہ ایک کیمرہ ڈائس پر لگایا گیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر لگائے کیمروں کی تعداد پانچ ہوگئی ہے۔
پی ٹی وی عملہ نے تصدیق کی ہے کہ ہمیں کارروائی براہ راست دکھانے کی اجازت دی گئی ہے۔