ایک نیوز نیوز: اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج عطا ربانی نے بیرسٹر فہد ملک قتل کیس کی سماعت کی جس دوران ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا اور ان کی حاضری لگواکر انہیں بخشی خانے واپس بھیج دیا۔
بعد ازاں عدالت نے بیرسٹرفہد ملک قتل کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے میں نامزد تینوں ملزمان راجہ ارشد،نعمان کھوکھر اور ہاشم کو عمرقید کی سزا سنائی۔
کیس کی فارنزک رپورٹ میں قتل میں استعمال کی گئی کلاشنکوف اور جائے وقوعہ سے ملے خول بھی میچ کر گئے تھے جب کہ کیس کے مرکزی ملزم راجہ ارشد کو ملک سے فرار کی کوشش میں طورخم بارڈر سے گرفتار کیا گیا تھا۔برطانیہ کے شہری بیرسٹر فہد ملک کو اگست 2016 میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا، مقدمے میں با اثر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد ملوث تھے۔
بیرسٹر فہد ملک، جو سابق چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو کے بھانجے بھی تھے، کو 2016 میں 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔برطانیہ میں قانون کی پریکٹس کرنے والے بیرسٹر فہد ملک ان کے قتل سے کچھ عرصہ قبل سے ہی پاکستان میں مقیم تھے۔بیرسٹر فہد ملک پر اس وقت گولیاں برسائی گئیں تھیں، جب وہ دو گروہوں کے درمیان ثالثی کے بعد اسلام آباد میں ایک تھانے سے باہر آئے ہی تھے۔پولیس رپورٹ کے مطابق بیرسٹر فہد ملک کے جسم میں 43 گولیاں لگی تھیں۔جائے وقوعہ پر موجود چار چشم دید گواہوں نے مقدمے میں نامزد تینوں ملزمان کے خلاف بیان دیا تھا۔
مقدمے کی فارنزک رپورٹ میں قتل میں استعمال کی گئی کلاشنکوف اور جائے وقوعہ سے ملے خول بھی میچ کر گئے تھے۔بیرسٹر فہد ملک قتل مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت، اسلام آباد ہائی کورٹ، پشاور ہائی کورٹ اور سپریم آف پاکستان کورٹ میں بھی زیر سماعت رہا۔ایک موقعے پر مقتول بیرسٹر فہد ملک کی والدہ ملیحہ سومرو نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے مقدمے سننے والی عدالت تبدیل کرنے کی بھی استدعا کی تھی۔
بیرسٹر فہد ملک کے لواحقین میں بیوہ اور تین بچے شامل ہیں، جو ان کے قتل کے وقت برطانیہ میں مقیم تھے۔
پاکستانی نژاد برطانوی شہری کے قتل میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے با اثر 'راجا' اور 'کھوکھر' خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے، جن پر دوسری کئی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی موجود تھے۔