ایک نیوز: شہریار آفریدی کی اہلیہ کی گرفتاری کیخلاف درخواست پر جسٹس ارباب طاہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ عدالت سے رہائی کے بعد کسی کو گرفتار کیاگیاتو بہت مسئلہ ہو گا،عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی توسخت نتائج ہو ں گے،آپ قانونی کارروائی کریں لیکن یہ کیا ہے کہ گھریلو خاتون کو ہی گرفتار کرلیا۔عدالت نے شہریارآفریدی کی اہلیہ کو رہا کرنے کاحکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں شہریار آفرید کی اہلیہ کی گرفتاری کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی،جسٹس ارباب محمد طاہرنے درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب!آپ کی حدود میں کیاہورہا ہے؟آپ قانون سے واقف ہیں یا نہیں؟
آئی جی اسلام آباد نے کہاکہ خاتون اور ان کا شوہر جی ایچ کیو حملے کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔
جسٹس ارباب طاہر نے ریمارکس دیئے کہ کون سا سورس آف انفارمیشن ہے آپ کے پاس؟دکھائیں۔ڈی سی صاحب کو فوری بلائیں،5 منٹ میں پیش نہ ہوئے تو مسئلہ ہوگا،ہم تو انکو آج رہا کرینگے اس طرح نہیں ہوتا، یہ عدالت جس کو رہا کرے اسے دوسرے چکروں میں اگر گرفتار کیا تو انکے نتائج ہونگے،ڈی سی کو کہیں فورا اس عدالت میں پہنچیں ، انھیں کال کریں۔
وکیل شہریار آفریدی نے کہا کہ ڈی سی سے پوچھا جائے ایس ایچ او کیسے تھری ایم پی او لگانے لگے ہیں۔
جسٹس ارباب محمد طاہرنےریمارکس دیئے کہ ہم نے انھیں بلایا ہے دیکھ لیتے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ عدالتوں کے آرڈرز کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں یہ معزرت کے ساتھ ۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیئے کہ ہماری اس عدالت کا کوئی آرڈر ایسے نہیں ہوگا ، آئی جی صاحب میں آپ کو بتا رہا ہوں ،اس عدالت کی خلاف ورزی اگر کی گئی تو سخت کارروائی ہوگی،یہ عدالت کو آرڈر کرے گی اس ہر عمل درآمد ہوگا اگر گڑ بڑ ہوئی تو آئی جی صاحب ٹھیک نہیں ہوگا۔
وکیل نے کہا کہ شہریار آفریدی کی اہلیہ کی کوئی غلطی نہیں۔
آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں، عدالت نے شہریار آفریدی کی اہلیہ کو روسٹرم پر طلب کر لیا۔
شہریارآفریدی کی اہلیہ نے کہا کہ جی میرا کوئی سوشل میڈیااکاؤنٹ نہیں۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیئے کہ ڈی سی کہاں ہیں ۔ کیا عدالت ڈی سی کا انتظار کرے گی؟ڈی سی کا انتظار کورٹ نہیں کرے گی۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ڈی سی صاحب پہنچ رہے ہیں۔
وکیل اہلیہ شہریار آفریدی نے کہا کہ ہم بیان حلفی دے دیتے ہیں ، انھیں رہا کریں۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب آپ اپنی لیگل ٹیم سے مشورہ کرکے کارروائی کیا کریں،آئی جی صاحب گڈ تو سی یو لیکن اس کیس میں نہیں کہیں گے۔گڈ ٹو سی یو کہنا چاہتا تھا لیکن اس کیس میں نہیں کہونگا۔کچھ بھی ہو آپکو بتا رہے ہیں ٹھیک نہیں ہورہا ،کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا جو ملوث ہوگا اسے سزا دیں،جو اثاثے جلائے گئے وہ پاکستان کے اثاثے ہیں ہمارے اثاثے ہیں لیکن عورتوں کو ایسا نہ پکڑا جائے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ نہ انکے پاس کوئی تفتیش ہے نہ انکے علاقے میں مقدمہ درج ہوا ہے،جی ایچ کیو تو پنڈی ہےاسلام آباد پولیس کی تو حدود ہی نہیں بنتی۔
شہریار آفریدی کے خلاف دو کیسز ہیں لسٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔
پولیس نے رپورٹ میں کہا کہ تھانہ آبپارہ اور انڈسٹریل ایریا میں مقدمات درج ہیں،ہم نے دیکھا ہے کہ گھریلو خواتین نے اپنے شوہر بھی قتل کئے ہیں،گھریلو خواتین کچھ اور سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتی ہیں۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب کو ہم جانے دیتے ہیں،ڈی سی کو سن لیتے ہیں ، فہرست جمع کروائیں کون سے اور کیسز ہیں،ایک چیز یاد رکھیں کہ ہماری عدالت سے رہائی کے بعد کسی کو گرفتار کیا گیا تو بہت مسئلہ ہوگا,کیا سورس انفارمیشن کی بنیاد پر سولہ ایم پی او لگایا جاسکتا ہے؟آپ قانونی کارروائی کریں لیکن یہ کیا کہ آپ نے گھریلو خاتون کو ہی گرفتار کرلیا,آئی جی صاحب آپ جا سکتے ہیں،ڈی سی کا انتظار کر لیتے ہیں،ہم شہریار آفریدی کی اہلیہ کا بیان حلفی لے کر انھیں رہا کر رہے ہیں.
شہریار آفریدی کی اہلیہ کو ڈی سی کے آنے تک کمرہ عدالت میں بیٹھنے کی ہدایت کردی گئی۔بیان حلفی کے بعد رہا کیا جائے گا۔
تھری ایم پی او کے آرڈر عدالت میں پیش کردیئے گئے۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے استفسار کیا کہ آپ ڈی سی کویٹہ بھی رہے جب میں ایڈوکیٹ جنرل تھابلوچستان میں،سروس ریکارڈ اچھا رکھنا چاہیے اسی وجہ سے آپکی عزت ہوگی۔
عدالت نے ڈی سی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ جسکو پکڑتے ہیں اسکی شورٹی بھی آپ کر سکتے ہیں،آپ قانون کو دیکھیں سب کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
ڈی سی اسلام آباد نے کہا کہ جو انفارمیشن تھی اسی بنیاد پر گرفتاری کی گئی،سپیشل برانچ کی رپورٹ پر گرفتاری کی گئی۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے استفسار کیا کہ ڈی سی صاحب رپورٹ جو بھی ہو آپ خود بھی قانون کو دیکھیں،پہلے بی بتایا ہے کہ ہماری عدالت کے حکم پر عمل درآمد ہوگا،ہماری عدالت کی اگر خلاف ورزی ہوئی تو سنگین نتائج ہونگے،میں کوئٹہ میں بھی رہا ہوں ، قانون سب جگہ ایک ہے،یہ ہمارے آفیسر ہیں،انھیں اچھے کا پتہ ہوتا ہے،عدالت نے ڈی سی کو ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ لیگل اسسٹنس لے کر آرڈر کیا کریں۔
وکیل شہریار آفریدی نے کہاکہ پی ٹی آئی کی حکومت میں راناثنا اللہ کو اٹھایاگیا تو میں نے مذمت کی۔
آئی جی اسلام آبادنے کہاکہ جس کیس کا وکیل صاحب نے حوالہ دیا میں خود اس کا متاثرہ ہوں،مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ حکومت میں بھی یہ سب ہوتا رہا۔آئی جی اسلام آباد نے کہاکہ خاتون کیخلاف شواہد موجود ہیں، یہ سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں،یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ یہ لیڈیز ہیں، انکے چار بچے ہیں۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ہم بہنوں اور ماؤں کی عزت کرتے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سوشل میڈیا کیا آپ نے دیکھے ہیں؟ڈی سی کہاں ہیں؟
وکیل نے کہا کہ وہ دوسری عدالت میں شاید موجود ہیں۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیئے کہ پانچ منٹ میں ڈی سی کو کہیں یہاں ہوں ورنہ انکے لیے مسئلہ ہوگا۔
وکیل شیرافضل نے کہاکہ اگر خاتون ملوث ہوئیں تو ہم یہ درخواست واپس لے لیں گے،اگر یہ شواہد پیش نہ کر سکے تو آئی جی کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ خاتون کو گرفتار کیا گیا ،انھیں ہمارے حوالے کیا جائے۔
آپکے حوالے کیوں کریں ، عدالتی ریمارکس پر عدالت میں قہقہے۔
وکیل اہلیہ شہریار آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ اس ماحول میں امید نظر آرہی ہے کہ انصاف ہورہا ہے۔
عدالت نے شہریار آفریدی کی اہلیہ کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کردی۔بعد ازاں عدالت نے شہریار آفریدی کی اہلیہ کو رہا کرنے کا حکم دیدیا۔