ایک نیوز: فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق خصوصی عدالتوں کیخلاف وفاق کی فل کورٹ کی استدعا مسترد کردی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لارجربینچ کیلئےتین ججزکیس سے معذرت بھی کرچکے عدالتی چھٹیاں چل رہیں کچھ ججزچھٹیوں پرہیں موجودہ حالات میں فوری فل کورٹ تشکیل نہیں دے سکتے ۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ نے مذکورہ درخواستواں پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری روسٹرم پر آگئے، انہوں نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
عابد زبیری نے کہا کہ میں نے تحریری جواب جمع کروا دیا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کررہا ہوں، میری 5 معروضات ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بات کرسکتے ہیں، جو بولنا ہے بتائیے، آپ کی رائے آنا اچھا ہوگا۔ عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 83 اے کے تحت سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا ہے۔ عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کےفیصلوں کی جانب دلانا چاہتاہوں، 1999 سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس سے اصول طے ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔جسٹس اجمل میاں کے فیصلےکے مطابق صرف فوجی اہلکاروں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلنز کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکارہوگی۔
عابد زبیری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں عدالت نے جوڈیشل ریویو کی بات کی۔ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں۔ عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سوال ہے کہ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا فوجی عدالتوں ٹرائل ہوسکتا ہے۔ آرٹیکل 175/9 کے تحت سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کےلئے ترمیم ضروری ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ملزمان کا اندرون تعلق ثابت ہوجائےتو کیا ہوگا؟عابد زبیری نے کہا کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کےلئے خاص ترمیم کرنا ہوگی،کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں۔ہمیں معلوم نہیں کہ ملزمان کے فوج عدالتوں میں مقدمات چلانے کا پیمانہ کیا ہے۔فوجی عدالتوں میں مقدمات سننے والے جوڈیشل کی بجائےایگزیکٹو ممبران ہوتے ہیں۔21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کےلئےتھیں،21ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے اجازت تو دی لیکن سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں ریویو کا اختیار بھی دیا۔سپریم کورٹ نے دائرہ اختیار یا اختیارات سے تجاوز بدنیتی کی بنیاد پر جوڈیشل ریویو کا اختیار دیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ اپنا مؤقف واضح کریں کہ کیا ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کےلیے کافی ہوگا؟ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا؟ جس پر عابد زبیری نے کہا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق ٹرائل کے لیے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا، فوج سے اندرونی تعلق ہو تو کیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟یہ فیصلہ کون کرے گا کس پر آرمی ایکٹ لگے گا کس پر نہیں؟عابد زبیری نے کہا کہ تحقیقات کرنا پولیس کا کام ہے۔پولیس ہی فیصلہ کرے گی۔عابد زبیری نے مختلف امریکی عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی فوج کی جانب سے حراست بھی غیر قانونی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان ے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل دینا شروع کردئیے ہیں۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے اکسیویں آئینی ترمیم اور لیاقت حسین کیس کو بھی زیر بحث لایا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسےہوسکتا ہے؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں 9 رکنی بنچ تھا،عدالت کے 23 جون کے حکمنامے کو پڑھوں گا۔
واضح رہے کہ مذکورہ درخواستیں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن، کامران علی اور پاکستان تحریک انصاف نے دائر کی تھیں اور گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ 9 مئی کے واقعات پر 102 لوگوں کو ملک کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت فوج کی حراست میں ہیں۔
وفاقی حکومت کا جواب جمع
گزشتہ روز وفاقی حکومت نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے توسط سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا تھا جس میں حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کو آئین اور قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں حکومت نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات احتجاج اور اچانک نہیں ہوئے تھے بلکہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی کارروائیاں تھیں تاکہ ملک کی مسلح افواج کو بدنام کیا جائے اور ملک کی اندرونی سلامتی خطرے میں ڈالی جائے۔
بیان میں کہا گیا کہ ان واقعات سے 2 ارب 53 کروڑ 91 لاکھ 90 ہزار روپے کا نقصان پہنچا، جس میں ایک ارب 98 کروڑ 29 لاکھ 50 ہزار کا فوجی تنصیبات، آلات اور گاڑیوں کا نقصان بھی شامل ہے۔عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گیے ہیں جن میں آرمی ایکٹ کو شامل نہیں کیا گیا جو کہ سپریم کورٹ نے اس سے قبل کہا تھا کہ ایف آئی آر کا متن اور قانون نکات جرم کی نوعیت کا تعین کر رہے ہیں۔
وفاقی حکومت نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت اس کے دائرہ کار میں نہیں اور قابل سماعت نہیں ہیں اور تاحال کسی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔جواب میں کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق ہے، فوجی اور دفاعی تنصیبات اور اداروں پر حملہ پاکستان کی قومی سلامتی پر براہ راست حملہ ہے۔