ایک نیوز:کوہ نمک کی وادی سون چاروں جانب گھرے پہاڑوں، خوبصورت جھیلوں اور کناروں پر اترتے پرندوں کی بڑی تعداد کے باعث ایک خوبصورت سیاحتی مقام سمجھی جاتی ہے اور ملک بھر سے سیاح یہاں کھنچے چلے آتے ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں نے اس انتہائی منفرد ماحولیاتی نظام(ایکو سسٹم) کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
تفصیلات کےمطابق سطح مرتفع پوٹھوہار کے جنوبی کنارے کی حد بندی پاکستان کا معروف سلسلہ کوہ نمک کرتا ہے جو مغرب میں میانوالی سے لے کر مشرق میں جہلم تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے کوہ نمک اس لیے کہا جاتا ہے کہ کیونکہ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے نمک کے ذخائر یہاں دریافت ہوئے تھے۔ نمک کے یہ ذخائر 50 ملین سال قبل انڈین پلیٹ کے ایشین پلیٹ کے ساتھ ٹکرانے کے نتیجے میں بحیرہ ء ٹیتھس کی تبخیر اور دریائے سندھ کے میدانوں کے قیام کا نتیجہ تھے۔
کوہ نمک کا مغربی کنارہ ایک نیم دائرہ تشکیل دیتا ہے جو وادی سون کو تخلیق کرتا ہے۔ وادی کے وسط میں بلندی سطح سمندر سے 2,000 فٹ ہے۔ یہاں واقع پانی کی نمکین جھیلیں بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ جھیلیں سائیبیریا سے آنے والے پرندوں کا گھر ہیں جن میں بقا کے خطرے سے دوچار مرغابیاں بھی شامل ہیں۔
کوہ نمک کی آب گاہوں کا کمپلیکس کلر کہار ،کھبیکی، اچھالی، جھلر اور نمل جھیلوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ مقامی بھیڑوں کی ایک قسم پنجاب اڑیال کا مسکن بھی ہے۔
کھبیکی کا علاقہ نمکین اور کیچڑ زدہ ہے اور سردیوں میں پرندوں کے کئی اقسام کیلئے انتہائی پرکشش ہے جن میں خطرے سے دوچار سفید سر والی بطخیں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے جھیل پر آنے والی مرغابیوں کی تعدادمیں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ اس آبی علاقے کے کمزور حیاتیاتی تنوع کو پرندوں اور مچھلیوں کے بے جا شکار اور جھیلوں میں پانی کی کمی سے زبردست نقصان پہنچا ہے۔ اچھالی جھیل بھی نمکین پانی رکھتی ہے اور ہجرت کرنے والے لم ڈھینگوں کیلئے مثالی علاقہ ہے۔ ہر سال یہ پرندے 3 سے 4 مہینوں کیلئے یہاں قیام کرتے ہیں اور اپنے طویل سفر کو جاری رکھنے کیلئے یہاں توانائی اکھٹا کرتے ہیں۔ کھبیکی ، اچھالی اور جھلر کو اچھالی کمپلیکس کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور 1996 میں اسے رامسر سائٹ تسلیم کیا گیا۔
اچھالی کمپلیکس کو 1966میں جنگلی حیات کیلئے محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ دس سال بعد جب پاکستان نے 1976میں رامسر کنونشن میں شمولیت اختیار کی تونایاب پرندوں کی آمد کے باعث ان جھیلوں کو رامسر سائٹ یعنی بین الاقوامی اہمیت کی حامل آب گاہ کا درجہ دیا گیا ۔ رامسر سائٹس میں ان جھیلوں کا نمبر 818 ہے۔ رامسر کنونشن میں ان آب گاہوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے جہاں معدومی کے خطرے سے دوچار جانور، پرندے اور پودے پائے جاتے ہیں۔
سائیبیریا کے سرد علاقوں سے آنے والے مہمان پرندوں میں سب سے اہم سفید سر والی بطخیں ہیں جن کی نسل کو اب بقا کا خطرہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ لم ڈھینگ، سارس ، چتکبرا سارس، قاز ، سفید آنکھوں والی مرغابی، خاکستری رنگ کے گدھ اور شاہی عقاب بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ ان جھیلوں میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ بدلتے موسموں کی تبدیلی سے جھیلوں میں پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ علاقے سے بڑے پیمانے پر جنگلات کا صفایا بھی پرندوں کیلئے بہت بڑے خطرے کی صورت سامنے آیا ہے۔
بارش کے پانی کا ذخیرہ
بارش کا پانی اور پہاڑی چشمے مقامی لوگوں کیلئے پینے کے پانی کے دو بڑے ذرائع ہیں کیونکہ جھیلوں کا پانی کھارا ہے اور پینے یا زراعت کے مقاصد کیلئے موزوں نہیں ہے۔
مقامی کسان کاشت کاری کیلئے ٹیوب ویل اور بارش کے پانی پر انحصار کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔
زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح اور پانی کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے، ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (WWF) پاکستان نے گزشتہ سال خطے میں مستقبل میں پانی کے انتظام کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے مختلف قسم کے منصوبے شروع کیے، خاص طور پر بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی تکنیک۔
بارش کے پانی کا ذخیرہ ایک ایسی تکنیک ہے جو نسبتاً صاف سطحوں جیسے چھت، زمین کی سطح یا چٹان کے کیچمنٹ سے مستقبل میں استعمال کیلئے بارش کے پانی کو جمع کرنے، پہنچانے اور ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔
یہ پانچ بڑے اجزاء پر مشتمل ہے۔ کیچمنٹ (بارش کے پانی کو جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے)، کنوینس سسٹم (یہ ذخیرہ کیے ہوئے پانی کو کیچمنٹ سے ریچارج زون میں لے جانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے)، فلش (بارش کے پہلے سپیل کو نکالنے کیلئے)، فلٹر (بارش کے جمع کیے گئے پانی کو فلٹر کرنے اور آلودگی کو دور کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے)، اور ٹینک اور ریچارج ڈھانچے (فلٹر شدہ پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جو استعمال کیلئے تیار ہے)۔
اب تک، اس علاقے میں 1300 کیوبک میٹر سالانہ پانی بھرنے کی صلاحیت کے ساتھ تقریباً 16 رین واٹر ہارویسٹنگ یونٹس قائم کیے گئے ہیں، WWF اگلے دو سالوں میں اس تعداد کو 34 تک بڑھانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
یہ یونٹس جھیلوں کے گردونواح میں قائم کیے گئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بارش کے پانی کو آبی ذخائر میں ڈالنے اور ان کے کھارے پانی میں گھلنے سے بچایا جا سکے۔
منصوبے کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے، WWF- پاکستان سے وابستہ ایک سینئر ماحولیاتی ماہر عمر بن خالد نے کہا کہ یہ تکنیک کم لاگت کی ہے، اور پانی اور توانائی دونوں کے تحفظ کو فروغ دینے کے علاوہ، پانی کے بل کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔
تاہم، انہوں نے مزید کہا، اس کی تنصیب کیلئے کچھ تکنیکی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔