ایک نیوز : پاکستان کے مرکزی بینک نے ملک میں پانچ نئے ڈیجیٹل بینکس کے قیام کے لیے این او سی جاری کر دیا ۔
نئے ڈیجیٹل بینکس میں پاکستانی صارفین بغیر برانچ جائے نہ صرف اپنے اکاؤنٹس کھول سکیں گے بلکہ قرض لینے اور کار فنانسنگ سمیت دیگر ضروریات گھر بیٹھے پوری کر سکیں گے۔گزشتہ ہفتے پاکستان کے سٹیٹ بینک نے پانچ درخواست گزاروں کو ڈیجیٹل بینک قائم کرنے کے لیے این او سی جاری کیا تھا جن میں کویت اور یو اے ای کے بینک بھی شامل تھے۔
ترجمان سٹیٹ بینک عابد قمر کاکہنا تھا کہ ڈیجیٹل بینک بھی مکمل بینک ہوتا ہے۔ اس میں اور ایزی پیسہ اور جاز کیش میں فرق ہے کیونکہ یہ دونوں تو صرف کیش اکاؤنٹس دیتے ہیں اور صرف ایک دو خدمات فراہم کرتے ہیں تاہم جن ڈیجیٹل بینکس کو این او سی جاری کیا گیا ہے، وہ مکمل بینک کے طور پر ساری خدمات مہیا کریں گے۔’مثال کے طور پر آپ ڈیجیٹل بینک سے قرض لے سکتے ہیں، منافع حاصل کر سکتے ہیں، پے آرڈر اور ڈیمانڈ ڈرافٹ بنا سکتے ہیں اور اندرون و بیرون ملک ہر طرح کی ادائیگی بھی کر سکتے ہیں۔‘
عابد قمر کا مزید کہنا تھا کہ عام بینک سے ڈیجیٹل بینک اس طرح مختلف ہو گا کہ عام بینک میں آپ کو بہت سارا پیپر ورک کرنا ہوتا ہے اور کئی کاموں کے لیے برانچز میں جانا ہوتا ہے تاہم ڈیجیٹل بینکوں کی پاکستان میں ایسی کوئی شاخ نہیں ہو گی جہاں صارفین کو جانا پڑے۔ ان کے صرف چند دفاتر ہوں گے تاہم برانچ سے متعلق کوئی ضروریات نہیں ہوں گی۔
ترجمان سٹیٹ بینک کے مطابق ڈیجیٹل بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے صارفین کے پاس سمارٹ فون یا انٹرنیٹ ہونا ضروری ہو گا کیونکہ بائیومیٹرک تصدیق اور دیگر ضروریات سمارٹ ڈیوائسز سے ہی پوری کی جا سکیں گی۔
سٹیٹ بینک کے مطابق کل پانچ گروپوں کو ڈیجیٹل بینک قائم کرنے کے لیے این او سی کا اجرا کیا گیا ہے۔ ان بینکوں میں ایزی پیسہ ڈی بی، ہوگو بینک، کے ٹی بینک، مشرق بینک اور رقمی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ایزی پیسہ ڈی بی ٹیلی نار پاکستان بی وی اینڈ علی پے ہولڈنگ لمیٹڈ کے اشتراک سے قائم ہوا ہے۔اس طرح ہوگو بینک گیٹز براس اینڈ کو، ایٹلس کون سولیڈیٹڈ پی ٹی ای لمیٹڈ اور ایم اینڈ پی پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ کے اشتراک سے قائم ہو رہا ہے۔
کے ٹی بینک کوڈا ٹیکنالوجیز لمیٹڈ، فاطمہ فرٹیلائزر لمیٹڈ اور سٹی سکول پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے قائم کیا جا رہا ہے۔
مشرق بینک کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے جبکہ رقمی کا تعلق کویت انویسٹمنٹ اتھارٹی سے ہے۔
سٹیٹ بینک نے گزشتہ برس جنوری میں ڈیجیٹل بینکوں کے لیے لائسنسنگ اور ریگولیٹری فریم ورک جاری کرتے ہوئے پانچ ڈیجیٹل بینکوں کو لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ فریم ورک پاکستان میں مکمل ڈیجیٹل بینکوں کے قیام کی جانب پہلا قدم تھا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ڈیجیٹل بینک ڈیجیٹل ذرائع سے تمام بینکاری خدمات فراہم کریں گے جن سے استفادے کے لیے صارفین کو بینک کی برانچوں پر جسمانی طور پر جانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
ڈیجیٹل بینک قائم کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کے لائسنسنگ اور ضوابط سے متعلق فریم ورک کے جواب میں سٹیٹ بینک کو 31 مارچ 2022ء تک کمرشل بینکوں، مائیکروفنانس بینکوں، الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشنز اور فن ٹیک فرموں جیسے دلچسپی رکھنے والے متنوع فریقوں کی جانب سے 20 درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔
فریم ورک کے تقاضوں کے مطابق جامع اور کڑی جانچ پڑتال کے بعد پانچ درخواست گزاروں کو منتخب کیا گیا۔
درخواست گزاروں کو قابلیت اور موزونیت، تجربے اور مالی مضبوطی، بزنس پلان، عملدرآمد کے منصوبے، فنڈنگ اور سرمائے کے پلان، آئی ٹی اور سائبر سکیورٹی کی حکمت عملی اور آؤٹ سورسنگ کے انتظامات سمیت مختلف پیرامیٹرز کو سامنے رکھتے ہوئے جانچا گیا۔
اس ضمن میں تمام درخواست گزاروں کو اپنا بزنس کیس سٹیٹ بینک کے روبرو پیش کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
عابد قمر کے مطابق ابھی ان بینکوں کو چار پانچ مراحل سے گزر کر کام شروع کرنا ہے۔ این او سی کی فراہمی کا عمل مکمل ہو چکا ہے اس کے بعد ان پانچ میں سے ہر درخواست گزار خود کو سیکوریٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے پاس بطور پبلک لمیٹڈ کمپنی رجسٹر کرائے گا۔
اس کے بعد یہ ڈیجیٹل بینک آپریشنل تیاری کی حالت کا مظاہرہ کرنے اور پائلٹ مرحلے کے تحت آپریشنز شروع کرنے کی اصولی منظوری حاصل کرنے کے لیے سٹیٹ بینک سے رجوع کریں گے۔
سٹیٹ بینک کی منظوری کے بعد یہ اپنے آپریشنز کو کاروباری سطح پر شروع کر دیں گے۔سٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ ان کے آپریشنز شروع ہونے کے بعد یہ ڈیجیٹل بینک معاشرے کے مالی وسائل سے محروم یا کم وسائل والے طبقات کو قرضوں تک رسائی دینے سمیت سستی/ کم لاگت والی ڈیجیٹل مالی سروسز کی فراہمی کے ذریعے مالی شمولیت کو فروغ دیں گے۔