ایک نیوز: سابق وزیر اعظم عمران خان نے دوٹوک انداز میں ملک بھر میں آئندہ عام انتخابات کی اپریل 2023 میں پیشگوئی کرتے ہوئے اس حوالے سے بھی بات کی ہے کہ ان کا ’اس وقت (نئی فوجی قیادت) سے کوئی ریلیشن شپ نہیں۔‘
تحریک انصاف نے کچھ روز کے وقفے سے پنجاب اور پھر اب خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دی ہیں جبکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے قومی اسمبلی میں حکومت کے ساتھ نگران حکومت کے قیام کے لیے مشاورت کا حصہ بننے کا عندیہ دیا ہے۔
بی بی سی اردو کے لیے عثمان زاہد کے عمران خان کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں یہی سوال ان کے سامنے رکھا گیا کہ کیا وہ معاشی اور ملکی بہتری کے لیے حکومت سے بات کرنے کو تیار ہیں؟
اس پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’آج تک کون سا سیاسی رہنما آیا ہے جو اپنی حکومت گرا دیتا ہے جو کہ 70 فیصد پاکستان ہے۔ یہ حکومت آکشن کے ذریعے آئی ہے، الیکشن کے ذریعے نہیں۔‘
انھوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے آئی ہے جس نے ’20، 25 کروڑ روپے دے کر لوگوں کو خریدا۔ جنرل باجوہ نے ان کی مدد کی، انھیں ہمارے اوپر بٹھانے کے لیے۔‘
’انھوں نے 1100 ارب روپے کے کرپشن کیسز ختم کروائے۔ ہماری معیشت کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔ کبھی پاکستان کے معاشی حالات وہ نہیں جو آج ہیں۔‘
عمران خان نے کہا کہ اس کا ایک ہی حل ہے: ’صاف و شفاف انتخابات۔ جب تک پاکستان میں الیکشن نہیں ہوتے، نہ اندر سے کوئی سرمایہ کار، کاروباری شخصیت ان پر اعتماد رکھتا ہے۔ نہ باہر سے کوئی ان پر اعتماد رکھتا ہے۔‘
’ہم ایک دلدل میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ سری لنکا جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے حل ایک ہی ہے فری اینڈ فیئر الیکشن۔ اس وجہ سے ہم نے اپنی دو حکومتیں گرائی ہیں۔‘
ملک میں بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف اگست میں عام انتخابات چاہتی ہے تو حکومتی وزرا نے بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی اور نئے عام انتخابات اکتوبر میں ہوں گے۔
تو حکومت کو دباؤ میں لانے کی وجہ کیا ہے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ ’فرق یہ ہے کہ انھوں (موجودہ حکومت) نے قانون کی بالادستی کی دھجیاں اُڑا دی ہیں یعنی اپنے آپ کو قانون کے اوپر کر دیا ہے۔ ساری چوری معاف کروا دی ہے۔ یہ وہ کیسز تھے جو ان کے اپنے ادوار میں بنے ہوئے تھے۔‘
’شہباز، نواز، زرداری، مریم یہ سب بچ گئے ہیں۔ ان پر سارے کیسز ختم ہوگئے ہیں۔۔۔ یہ جتنی دیر اور چاہیں گے، ان کا مقصد اپنے کیسز ختم کرنا ہے۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’اس وقت دو مہینے بھی بہت دور لگ رہے ہیں۔ آپ نے اگست کہا (مگر) میں تو ابھی کی بات کر رہا ہوں۔ ہمیں یہ خطرہ ہے کہ جس طرح ہماری معیشت گِر رہی ہے، ہمارے چار ارب ڈالر کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ بندرگاہ پر چار ارب کی چیزیں پڑی ہیں جو اٹھا نہیں رہے۔ چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں، بے روزگاری، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں ان کے دو ماہ (اور) گزارنا مشکل لگ رہا ہے۔ میری اپنی پیشگوئی ہے کہ جو بھی ہوجائے، یہ حکومت اپریل میں الیکشن کرانے پر مجبور ہوجائے گی۔‘
اپریل 2023 میں عام انتخابات ہونا قابل ذکر اس لیے بھی ہوگا کہ ٹھیک ایک سال پہلے اسی ماہ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کی گئی تھی اور ان کی حکومت چلی گئی تھی یعنی وہ گذشتہ ایک سال سے پورے ملک میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ ’اسٹیبلشمنٹ نے پرویز الہی پر پورا زور لگایا کہ وہ ن لیگ کے وزیر اعلی بن جائیں یا وزارت اعلیٰ ( عمران خان کے کہنے کے باوجود) نہ چھوڑیں۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا ہم اسمبلیوں کو تحلیل کریں گے۔‘
’(مگر) انھوں نے ہم سے وفاداری نبھائی اور ہمیں وفاداری واپس دینی تھی۔ وہ یہ ہے کہ وہ (تحریک انصاف میں) ضم ہوجائیں گے اور ہماری پارٹی کا حصہ بن جائیں گے۔‘
ایک عام رائے پائے جاتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حکومت معاشی طور پر کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی اور بعض مبصرین کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کی مہم اس عدم استحکام میں اضافہ کر رہی ہے۔
ان الزامات پر عمران خان کا جواب تھا کہ ’ان سے کوئی یہ سوال پوچھے کہ انھوں نے سازش کر کے ہماری حکومت کیوں گرائی تھی؟ جبکہ 17 سال میں ہماری سب سے بہتر معاشی کارکردگی تھی۔‘
’ہم کون سی کوئی غلطی کر رہے تھے جو انھوں نے ایک آرمی چیف کے ساتھ مل کر (ہماری) حکومت گرائی۔ اس کے بعد ان سے سنبھالی نہیں گئی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں نے اور شوکت ترین (اس وقت کے وزیر خزانہ) نے مل کر جنرل باجوہ کو بتایا تھا کہ اگر آپ نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا، یہ سازش کامیاب کرنے کے لیے، تو (معیشت کو) کوئی بھی نہیں سنبھال سکے گا۔ اور وہی ہوا۔‘
’ان سے سنبھالی نہیں گئی۔ مارکیٹ نے ان پر جلد اعتماد کھو دیا۔ یہ اپنی چوریاں اور این آر او ٹو لے رہے تھے۔ ملک کے اندر افراتفری پیدا ہونے لگی۔ تو آج ذرا (کسی) کاروباری شخیصت سے پوچھیں۔ کیا یہ ہماری وجہ سے ہوا ہے؟ یہ انھیں آتے ساتھ ہی اندازہ ہوا کہ ان کے پاس تو روڈ میپ ہی نہیں۔۔۔ جو جنرل باجوہ نے ان کے ساتھ مل کر کیا ہے، دشمن بھی پاکستان کے ساتھ نہ کرتا۔‘
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’آج اٹھا کر دیکھ لیں پاکستان میں اپریل میں کدھر کھڑا تھا اور آج کدھر کھڑا ہے۔‘
’میری دفعہ انھوں نے تین لانگ مارچز کیے تھے۔۔۔ سارا وقت انھوں نے میری حکومت پر تنقید کی، اس کے باوجود ہم ترقی کر رہے تھے۔‘
اس سوال پر کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ عمران خان اور ان کی جماعت کے کیسے روابط ہیں اور آیا انھوں نے صدر عارف علوی کی مدد سے نئی قوجی قیادت کے ساتھ رابطے قائم کیے ہیں، عمران خان نے کہا ’دیکھیں، ہمارا اس وقت (نئی فوجی قیادت) سے تو کوئی ریلیشن شپ نہیں۔‘
بطور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے تسلیم کیا کہ انھوں نے کئی معاملات پر اپنا مؤقف تبدیل کیا ہے مگر طالبان کے ساتھ بات چیت کا وہ مؤقف ہے جس پر ان کی کم و بیش ایک ہی پالیسی رہی ہے: امن مذاکرات اور بحالی۔
ہم نے عمران خان سے پوچھا کہ ملک بھر میں شدت پسندوں کے حملوں کے بعد کیا ان کے اس مؤقف میں تبدیلی آئی ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہوا۔ جیسے ہی افغانستان میں رجیم چینج ہوئی، تو افغانستان میں بیٹھی ٹی ٹی پی کو افغان حکومت نے پاکستان واپس جانے کا کہا۔ غنی حکومت ان کی حوصلہ افزائی کرتی تھی اور یہ وہیں سے پاکستان پر حملے کرتے تھے۔‘
’جب یہ دوسری (طالبان کی) حکومت آئی تو انھوں نے کہا واپس جاؤ۔ اب جب انھوں نے واپس آنا تھا تو پاکستان کے پاس کیا راستے تھے؟ دو راستے تھے۔ یا تو ان چالیس ہزار لوگوں، جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو کھڑا کر کے گولی مار دیتے۔ اگر وہ نہیں کرنا تھا تو ان کا ری ہیبلٹیٹ کرنا تھا۔ ساری سیاسی جماعتیں اس کے لیے متفق تھیں مگر ایسا نہیں ہوا۔‘
عمران خان نے کہا کہ شدت پسندی میں تیزی اچانک نہیں آئی۔ ’آہستہ آہستہ جب وہ آئے تو انھیں ری ہیبلٹیٹ نہیں کیا گیا، ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ان کے اوپر کوئی پیسہ نہیں خرچ کیا جو ہم نے فیصلہ کیا تھا۔۔۔ ہمیں خوف تھا کہ اگر ان پر توجہ نہ دی گئی تو پھر جگہ جگہ دہشتگردی شروع ہو جائے گی، جو ہو گئی ہے۔‘