کہ تم اک پارس ہو (2)

hilly area
کیپشن: hilly area
سورس: google

شہر بانو

اس رات وہ فون کی گھنٹی بخت ڈھلنے کی دلیل تھی- ماں کے وجود میں عجب کپکپی طاری ہو رہی تھی- فون کی سکرین پر جگمگاتا ہوا وہ نمبر نہ صرف اُس وقت اُس کے ڈھلتے مقدر کی نشاندہی کر رہا تھا  بلکہ ساتھ ہی ساتھ اُجڑی ہوئی قسمت کی وضاحت بھی دے رہا تھا- 
آج  دل چاہا تھا کہ فون کو کہیں دور پھینک آئے ، اگلی گھنٹی دوبارہ کانوں میں کبھی نہ پڑے مگر کبھی انسان حقیقت  سے بھاگ سکا ہے کہیں؟ نہیں، جتنا انسان حقیقت سے بھاگتا ہےاصلیت میں اس کی بازگشت اتنی ہی تیزی سے پیچھا کرتی ہے۔۔۔ اذیت اُتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے ۔۔۔۔
زندگی کے اُلجھنوں سے بھرے ہوئے صفحات میں سے یہ صفحہ اتنا تلخ معلوم ہوا تھا کہ جان حلق میں اٹکی تھی- نہ  سکوں کی نعمت  نصیب میں آتی دکھ رہی تھی  نہ وجود سے لپکی اذیتیں ساتھ چھوڑ رہی تھیں۔۔۔۔
زندگی کی ساری ہمتیں اکٹھی کر کے ماں نے فون اٹھایا۔ 
اگلی طرف بھاری مردانہ آواز تھی۔ فون اُٹھاتے ہی دوسری جانب سے ایک سوال کیا گیا... 
  کیا آپ ارسلان خان کی والدہ بات کر رہی ہیں۔؟ 
بیٹے کا نام سنتے ہی بے ساختہ دل نے ہزاروں خیریت کی دعائیں لبوں پر اُتاریں...
بے چینی جان لینے کو تھی ، گھٹن سانسوں کو اُلجھا رہی تھی، بے ساختہ کمرے کی بے رنگ دیواروں کو بغیر پلکیں  جھپکائے دیکھ رہی تھی۔ حقیقت جو کہ جان لیوا ثابت ہونی تھی۔۔۔۔  وہ اُس سچ سے بہت دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔
لحظے کو محسوس ہوا کہ دوسری جانب سے پِھر سوال دھرایا گیا ہے۔
ہاں، ہاں! میں ہی اُس کی ماں ہوں۔ نا جانے کتنی اذیت سے یہ الفاظ لبوں پر اترے تھے۔ دوسری جانب سے پھر ایک سوال کیا گیا  ہے۔ یہ سوال دلیل تھا کہ اُس کی زندگی کا کُل اثاثہ لُٹ چکا ہے۔ اُس نے دل تھامتے ہوئے جواب دیا۔ ہاں! یہ اُسی کی گاڑی کا نمبر ہے ۔ 
صبر سامنے کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ ضبط اُس کے کاندھوں پر ہاتھ دھرے کھڑا تھا۔ اذیت وجود سے لپکی تھی اور ہمت نہ جانے اِس بھیڑ میں کہاں کھو گئی تھی 
دوسری جانب سے مردانہ آواز پھر سے اُبھری جو الفاظ ادا کئے گئے کسی آری کی طرح وجود کو کاٹتے ہی چلے گئے۔
بی بی کیا گھر میں کوئی اور مرد موجود ہے جس سے بات ہو سکے؟ اذیت نے پھر سے ہاتھ کی آخری انگلی تھامی۔۔۔۔