پشاور سے 2لاکھ بلیک ڈالر پکڑے گئے،ایکسائزحکام حیران 

پشاور سے 2لاکھ بلیک ڈالر پکڑے گئے،ایکسائزحکام حیران 
کیپشن: 2 lakh black dollars were seized from Peshawar, the excise authorities were surprised

ایک نیوز :محکمہ ایکسائز کی ٹیم نے پشاور میں گشت کے دوران گاڑی سے 2لاکھ بلیک ڈالر برآمد کئے جوامریکی حکام افغانستان میں جنگ کے دوران استعمال کرتے تھے۔


  ملزمان کو مزید تفتیش کیلئے ایف آئی اے کے حوالے کردیاگیا۔  کیوں کہ کرنسی اسمگلنگ کی روک تھام  محکمہ ایکسائز  کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ گرفتار ملزم کا تعلق وزیرستان سے ہے اور وہ یہ امریکی بلیک ڈالر مردان لے جا رہا تھا۔

بلیک ڈالر کیا ہے؟پشاور کی مارکیٹ میں کہاں سے آ گئے

محکمہ ایکسائز کے حکام کے مطابق ابتدائی طور پر اس معاملے کو جعلی کرنسی کے طور پر دیکھا گیا لیکن ملزم سے پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ یہ کالے رنگ کے کاغذ نہیں بلکہ امریکن ڈالر ہیں، جنہیں عام آدمی پہچان نہیں سکتا۔ 

ایف آئی اے افسر کاکہنا تھاکہ پاکستان کی مارکیٹ میں بلیک ڈالر نہیں ہیں اور نہ کھلے عام ملتے ہیں ۔امریکا افغانستان جنگ کے دوران پاکستان سے بلیک ڈالر نیٹو سپلائی کے ذریعے افغانستان منتقل کرتا تھا اور اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔

بلیک ڈالر سے اصل ڈالر میں تبدیلی
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے افسر نے مزید بتایا کہ بلیک ڈالر کو اصلی حالت میں تبدل کرنا ایک بہت مشکل کام ہے، امریکی حکام اپنی کرنسی کو محفوظ طریقے سے افغانستان منتقل کرنے کے لیے بلیک ڈالر کا طریقہ اپناتے تھے اور ایک خاص کیمیکل کے ذریعے ان ڈالرز کو واپس اپنی اصل حالت میں لایا جاتا ہے۔ نوٹ پر ایک خاص قسم کا کیمیکل ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا رنگ کالا ہو جاتا ہے اور پھر یہ رنگ آسانی سے اترتا بھی نہیں ہے۔ مزید بتایا کہ اسے اصلی حالت میں لانے کے لیے بھی کیمیکل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب ڈالر کو اس کیمیکل میں ڈالا جاتا ہے تو اس پر سے کالا رنگ ہٹ جاتا ہے اور یہ اپنی اصل حالت میں واپس آ جاتا ہے، خاص بات یہ ہے کہ اس ڈالر کو ہر کوئی استعمال نہیں کر سکتا۔

بلیک ڈالر پاکستان میں کیسے آئے؟
ایف آئی اے  کے افسر نے مزید بتایا کہ بلیک ڈالر کا مسئلہ اس وقت سامنے آیا تھا جب امریکن اور نیٹو فورسز افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑ رہی تھیں اور نیٹو سپلائی پاکستان کے ذریعے ہوتی تھی۔ اُس وقت نیٹو سپلائی کے کنٹینرز کو راستے میں لوٹ لیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ بلیک ڈالر پاکستان میں ابھی بھی گردش کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب لوگوں کو بلیک ڈالر کا پتہ چلا تو اس کے لیے استعمال ہونے والا کیمیکل بھی بھاری رقم میں ملتا تھا۔ تاہم گزشتہ کئی سالوں سے بلیک ڈالر مارکیٹ سے ختم ہو گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ نیٹو کنٹینرز کی لوٹ مار کے دوران ملزمان بھاری ڈالر لوٹ کر جاتے تھے اور اب وہ شاید انہیں باہر نکالنے سے ڈر رہے ہوں۔

ڈالر کی اونچی اڑان سے بلیک ڈالر کی مانگ بھی بڑھ گئی
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے حکام کے مطابق بلیک ڈالر کی قدر عام ڈالر کی نسبت کم ہے کیوں کہ اس کے لیے ایک خاص کیمیکل کی ضرورت ہوتی ہے جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی اونچی اڑان سے بلیک ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا بلیک ڈالر کا کوئی ایک ریٹ مقرر نہیں جبکہ ریٹ خریدار اور فروخت کرنے والے خود طے کرتے ہیں۔

ڈالر کا بلیک رنگ ہٹانے کے لیے مردان لے جا رہا تھا، ملزم
بلیک ڈالر کیس میں گرفتار ملزم نے ایف آئی اے کو بتایا کہ اس نے بلیک ڈالر اسی روز پشاور میں ایک شخص سے خریدے تھے اور اب وہ انہیں لے کر مردان جا رہا تھا جہاں مجھے کیمیکل کے ذریعے ان کا کالا رنگ ہٹانے کا کہا گیا تھا۔  ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کے بعد منافع کمانے کے لیے بلیک ڈالر خریدا تھا۔انہوں نے وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص کی بھی نشاندہی کی ہے جس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے گرفتار ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے۔