ایک نیوز: پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ابھی تک ففتھ جنریشن (5 جی) ٹیکنالوجی متعارف نہیں ہوسکی مگرکچھ ممالک ایسےہیں جوٹیکنالوجی کی ترقی میں پیش پیش ہے۔
تفصیلات کےمطابق دنیامیں ٹیکنالوجی کےلحاظ سےہرروزنئےتجربات کئےجارہےہیں ان میں سےچین کےسائنسدانوں نےایک کارنامہ انجام دینےکی کوشش کی ہے۔چین کے سائنسدانوں نے ایک بڑی پیشرفت کی ہے جس سے تیز ترین سیٹلائیٹ انٹرنیٹ کا راستہ کھل جائے گا۔
سائنسدانوں کے مطابق یہ6 جی نیٹ ورکس کی تیاری کے عمل کا اہم ترین حصہ ہے۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے زیرتحت شیان انسٹیٹیوٹ آف آپٹکس اینڈ Precision Mechanics کے سائنسدان ایک دہائی سے زائد عرصے سے ایسی سوئچنگ کمیونیکیشن ڈیوائس تیار کرنے پر کام کر رہے تھے جو ڈیٹا ٹرانسمیشن کی اسپیڈ بڑھا سکے۔
اس کمیونیکیشن ڈیوائس کو اگست 2023 میں وائے 7 راکٹ کے ذریعے زمین کے مدار میں سیٹلائیٹ میں نصب کرکے بھیجا گیا تھا۔زمین کے مدار میں اس ڈیوائس نے ایک جگہ سے دوسری جگہ لائٹ سگنلز کو برقی سگنلز میں تبدیل کیے بغیر بھیجنے میں کامیابی حاصل کی، درحقیقت اس نے کسی آئینے کی طرح کام کیا۔
اس ڈیوائس کو اسپیس بورڈ آپٹیکل سوئچنگ ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا ہے اور یہ پہلی بار ہے جب چین کی جانب سے ایک سیٹلائیٹ میں اس طرح کی ڈیوائس کی کامیاب آزمائش کی گئی۔
سائنسدانوں کے مطابق اس ڈیوائس کے ڈیٹا کو جب زمین پر ڈاؤن لوڈ کیا گیا تو تمام تر تفصیلات برقرار رہیں اور ڈیٹا کو نقصان نہیں پہنچا۔اس طرح کی ڈیوائسز کو کمیونیکیشنز نیٹ ورکس کا اہم ترین حصہ مانا جاتا ہے جو ایک مخصوص سمت میں ڈیٹا کو تقسیم کرتی ہیں، مثال کے طور پر اسی طرح ہماری فون کال مخصوص فرد تک پہنچتی ہے۔
روایتی سوئچنگ ڈیوائسز لائٹ سگنلز کو بجلی استعمال کرکے ڈیجیٹل ڈیٹا میں تبدیل کرتی ہیں، مگر نئی ڈیوائس اس کے بغیر کام کرتی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اس طریقہ کار کی بدولت خصوصی سوئچنگ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کا خرچہ بچانا ممکن ہوگا۔
اس حوالے سے 2022 میں جاری ہونے والے ایک سائنسی مقالے میں بتایا گیا تھا کہ یہ ڈیوائس 40 جی بی فی سیکنڈ ڈیٹا کو سپورٹ کر سکتی ہے جو روایتی سوئچنگ ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔سیٹلائیٹ ریموٹ سنسنگ کی تیاری سے ڈیٹا کی تیز رفتاری سے منتقلی اور6 جی موبائل کمیونیکیشن کا عمل ممکن ہوگا۔
سائنسدانوں کے مطابق 6 جی جیسے کمیونیکیشن نیٹ ورکس میں سیٹلائیٹس کا کردار بہت اہم ہوگا۔ابھی سیٹلائیٹ انٹرنیٹ کو زمین پر پہنچانے کے لیے مائیکرو ویو ٹیکنالوجی پر انحصار کیا جاتا ہے، مگر اس میں ڈیٹا ٹرانسفر کی اسپیڈ محدود ہوتی ہے۔
مگرحالیہ برسوں میں لیزر کو ڈیٹا ٹرانسفر کے لیے استعمال کرنے میں پیشرفت ہوئی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق جب ڈیٹا ٹرانسفر اسپیڈ بہت زیادہ ہوتی ہے تو روایتی سوئچنگ ٹیکنالوجیز کو 100 جی بی فی سیکنڈ ڈیٹا کو پراسیس کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔اسی لیے زیادہ جدید آپٹیکل ایکسچینج سسٹم کی تیاری ضروری ہے۔
مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ اس پیشرفت کے باوجود اس ٹیکنالوجی کو عملی شکل دینے میں کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل تخمینہ لگایا گیا تھا کہ دنیا میں 6 جی ٹیکنالوجی کی آمد 2030 سے قبل ممکن نہیں ہوسکے گی۔