ایک نیوز نیوز: کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی تحقیقات پر کینین صحافی برائن اوبائیو نے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کینین صحافی نے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم سے متعلق انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم مخصوص ذہن بنا کر کینیا آئی تھی اور اسی زاویے پر سوالوں کے جواب کی کوشش کی۔ پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم معلومات کو اپنے ذہن کے مطابق جانچنے کی کوشش کرتی رہی۔
انہوں نے کہا کہ عمومی تاثر ہے کہ ارشد شریف کی موت جی ایس یو کی فائرنگ سے ہوئی۔ کینیا پولیس ایک زاویے پر تحقیقات نہیں کررہی بلکہ اس کا دائرہ وسیع ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کینیا پولیس کے مطابق ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ کرنے والے زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ 2 گولیاں ایسے شخص نے چلائی جو کھڑا ہوا تھا۔ تفتیش کے مطابق باقی ساری گولیاں زمین پر لیٹے ہوئے افراد نے چلائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بات واضح ہے میں یہ نہیں کہتا کہ تشدد نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ٹھوس شواہد کیساتھ کہنا چاہیے کہ تشدد ہوا ہے۔ پاکستان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا جسم پر 12 نشانات تھے۔ پاکستان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نہیں بتایا نشانات کس چیز کے ہیں۔ کیا نشانات ارشد کے جسم پر موت سے پہلے کے ہیں یا پوسٹ مارٹم کی وجہ سے آئے؟ بارہ نشانات کی وجہ ٹارچر نہیں بتایا گیا اس لیے ہم تشدد کا نہیں کہہ سکتے۔
کینیا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا ارشد کی موت گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں تشدد ہوا بھی ہے تو کوئی نہیں بتاسکتا کہ کتنے گھنٹے تشدد ہوا۔
انہوں نے پاکستان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو انتہائی مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوسٹ مارٹم پیتھالوجسٹ نے نہیں کیا۔ حیرانی ہے کہ پوسٹ مارٹم کرنے والی ٹیم کی سربراہی ایک نیوروسرجن کررہا تھا۔ ارشد شریف کا قتل ہائی پروفائل ہے اور پوسٹ مارٹم میں اتنی سنگین کوتاہی کی گئی۔ حیران ہوں پوسٹ مارٹم کرنے والی ٹیم میں فرانزک ماہر کیوں شامل نہیں تھا۔ ایسے سوالات کی وجہ سے دونوں پوسٹ مارٹم رپورٹس پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں گولی نہیں بلکہ دھات کے ٹکڑے کا ذکر ہے۔