ایک نیوز نیوز: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دی اور حکم دیا کہ اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے لانگ مارچ کے خلاف کامران مرتضیٰ کی درخواست کی سماعت کی، جسٹس عائشہ ملک اورجسٹس اطہر من اللّٰہ بینچ میں شامل تھے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے دورانِ سماعت استفسار کیا گیا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے جگہ کا تعین کیا گیا ہے؟ اس بارے میں انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے ایڈشنل اٹارنی جنرل کو آدھے گھنٹے میں انتظامیہ سے پوچھ کر بتانے کا حکم دیا۔
وقفے کے بعد جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سینیٹر و ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ 2 ہفتے سے عمران خان کا لانگ مارچ جاری ہے، فواد چوہدری کے مطابق جمعے یا ہفتے کو لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا، جس سے معاملاتِ زندگی متاثر ہو سکتے ہیں، لانگ مارچ پی ٹی آئی کا حق ہے لیکن اس سے عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: احتجاج کےنام پر سڑکیں بند کرنا کسی کا حق نہیں: چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ لانگ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟ یہ ایگزیکٹیو کا معاملہ ہے، ان سے ہی رجوع کریں، غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے، جب انتظامیہ کے پاس صورتِ حال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بات اب بہت آگے جا چکی ہے، پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان گئی۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے، کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے؟ لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکرکیا ہے، لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے، اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے، آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے، اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے، آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن و امان کی صورتِ حال خراب ہو سکتی ہے، کیا 25 مئی کے لانگ مارچ کے لوگوں کے پاس اسلحہ تھا؟ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ لانگ مارچ ابھی پنجاب کی حدود میں ہے، کیا آپ نے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک سینیٹر ہیں، پارلیمنٹ کو مضبوط کریں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں ذاتی حیثیت میں عدالت آیا ہوں۔
جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیسے مان لیں کہ آپ حکومت کا حصہ بھی ہیں اور ذاتی حیثیت میں آئے ہیں؟
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ بظاہر لگتا ہے کہ انتظامیہ صورتِ حال کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نےریمارکس دیئے کہ آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے؟اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹیو کے پاس وسیع اختیارات موجود ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق تو ایگزیکٹیو کے اختیارات تو 27 کلومیٹر تک محدود ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کو متحرک کریں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں،آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں،کیا کبھی باقی احتجاجوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟ ایک مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟
کامران مرتضی نے کہا کہ لانگ مارچ کی وجہ سے ایک پورا صوبہ مفلوج رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مفروضے کی بنیاد پر ہمارے پاس آئے ہیں؟
جسٹس عائشہ ملک نےاستفسار کیا کہ توہینِ عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیرِ التواء ہے، فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیرِ التواء ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کامران مرتضیٰ سے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے 25 مئی کے جلسے کے لیے ایچ نائن گراؤنڈ کے لیے درخواست دی گئی تھی، انتظامیہ نے ایچ نائن گراؤنڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی، ایچ نائن گراؤنڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا، کیا آپ اس بات سے خائف ہیں کہ 25 مئی والا واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ انتظامیہ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لیے پی ٹی آئی کا خط موصول ہوا تھا،انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے تاریخ، وقت اور جگہ کے متعلق پوچھا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا، وزیرآباد واقعے سے پہلے پی ٹی آئی نے خون ریزی کی باتیں کی، وزیرآباد واقعے کے بعد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
بعد ازاں عدالت نے عمران خان کےلانگ مارچ کےخلاف درخواست غیر مؤثر ہونے پر نمٹادی جبکہ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔