ایک نیوز: کے پی حکام نے صوبے میں انتخابات کے لیے فوج کی سیکیورٹی کو ناگزیر قرار دے دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت کے پی انتخابات سے متعلق اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں ممبران، سیکرٹری الیکشن کمیشن، چیف سیکرٹری اور آئی جی کے پی شریک ہوئے۔
چیف سیکرٹری اور آئی جی کے پی کے نے اجلاس کو بریفنگ دی ۔ بریفنگ میں کہا گیا کہ صوبے میں سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ فوج کے بغیر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ انتخابات کا پُر امن انعقاد انتہائی ضروری ہے۔امیدواران اور ووٹرز اپنا حق رائے دہی بلا خوف و خطر استعمال کر سکیں۔الیکشن کمیشن کو صوبائی حکومت کی مشکلات کا ادراک ہے۔ الیکشن کا پُرامن اور بروقت انعقاد بھی الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے لئے صوبائی حکومت کی بریفنگ انتہائی اہم اور مفید ہے۔
پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت مکمل ہو گئی ہے۔الیکشن کمیشن جلد اس سلسلے میں مناسب فیصلہ کرے گا۔
چیف سیکرٹری نے الیکشن کمیشن کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو 19 ارب کے مالی خسارے کا سامنا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے لئے تقریباً 1.6 ارب مزید درکار ہوں گے۔جس کو پورا کرنا صوبائی حکومت کے لئے مشکل ہے۔صوبہ کی امن وامان کی صورتحال مخدوش ہے۔پولیس کو الیکشن کے انعقاد کے لئے 56 ہزار نفری کی کمی کا سامنا ہے ۔امن وامان کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ انتخابات پُر امن ہوں گے۔انتخابات کے دوران پاک فوج / ایف سی کی تعیناتی انتہائی ضروری ہے۔اکیلے پولیس انتخابات کے دوران امن وامان کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔
چیف سیکرٹری کا مزید کہنا تھا کہ2013 اور 2018 کے انتخابات میں پاک فوج کی وجہ سے انتخابات پُرامن ہوئے۔2018 کے الیکشن کے وقت امن وامان کی صورتحال موجودہ حالات سے بہت بہتر تھی۔
آئی جی پولیس نے الیکشن کمیشن کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہمختلف دہشت گرد گروپ افغانستان سے بارڈر پار کر کے صوبہ کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔2022 میں صوبہ میں 495 دہشت گردی کے واقعا ت ہوئے ہیں۔ 2023 میں اب تک 118دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں۔نئے ضم شدہ اضلاع کے حالات بھی الیکشن کے انعقاد کے لئے موزوں نہیں ہیں۔باقی ملک کی نسبت خیبرپختونخوا کی صورتحال بہت خراب ہے۔صوبائی اسمبلی کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات میں اخراجات دگنے ہو جائیں گے۔ووٹرز اورانتخابی عملہ کو سیکیورٹی کی خطرناک صورتحال کا دو دفعہ سامنا کرنا پڑے گا۔دہشت گردوں کی کاروائیاں اپریل سے اکتوبر تک تیز تر ہو جاتی ہیں۔