ایک نیوز :لاہورہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف اسلام آباد کے 5اور لاہور کے 4مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں منظورکرلیں۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے لاہور کے4 مقدمات میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی 10روز کیلئے27مارچ تک اور اسلام آباد میں درج5 دہشت گردی مقدمات میں7روز آئندہ جمعہ(24مارچ) تک حفاظتی ضمانت منظور کی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ،جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل 2رکنی بینچ نے عمران خان کی انسداد دہشتگردی دفعات کے تحت 7مقدمات میں حفاظتی ضمانت کی درخواستوں پرسماعت کی ۔
سابق وزیراعظم عمران خان کمرہ عدالت میں موجود رہے۔
لاہورہائیکورٹ میں عمران خان کے وکیل کادلائل میں کہنا تھا کہ حفاظتی ضمانتوں کی ایف آئی آرز کی کاپیاں ساتھ منسلک کی گئیں ہیں۔سیاسی بنیادوں پرمقدمات درج کئے گئے۔3ایف آئی آرز اسلام آباد میں درج ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کاروسٹرم پرآ کرکہنا تھا کہ ہمیں سمجھ نہیں آرہی ایک مقدمے میں فری ہوتے ہی دوسرے مقدمہ درج کرلیاجاتاہے۔جتنے کیسز ہوگئے ہیں کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ الیکشن کی تاریخ دی گئی ہے اور مقدمات درج الگ کئے جارہے ہیں۔میں نے کبھی نہیں کہا جس طرح میرے گھر زمان پارک پراٹیک کیاگیا۔میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے حالات بہتر کروا دیئے حالات میری سمجھ سے باہر چلےگئےتھے ۔ عمران خان کا فاضل جج کوکہنا تھا کہ میں نے کبھی قانون کے خلاف نہیں گیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کاکہنا تھا کہ زمان پارک میں جو کچھ ہوا ایسا لگ رہا تھا کہ ہم دہشتگرد ہیں ۔کچھ کیسز کی تفصیلات ہمارے پاس نہیں ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم آپ کو بلینکٹ بیل نہیں دے سکتے۔ہم انہی کیسز کو دیکھیں گے جن کی درخواستیں ہمارے پاس ہیں۔اس کیس کو آپ کی جانب سے غلط ہینڈل کیا گیا ہے۔
عمران خان نے کہا انٹریر منسٹری کہہ رہی ہے کہ میری جان کا خطرہ ہے۔میں صرف اس عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہتا تھا وہاں سکیورٹی ایشو ہے۔
عمران خان کا دلائل میں کہا کہ عمران خان کے خلاف لاہور اور اسلام باد میں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔عدالتی حکم پر عمران خان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل ابھی تک فراہم نہیں کی گئی۔سیاسی انتقامی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔اگر عدالت مداخلت نہ کرتی تو بہت مسائل پیدا ہونے تھے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کاکہنا تھا کہ جس کچہری میں پیش ہونا ہے ، وہاں پہلے بھی حملے ہوچکے ہیں۔ججز اور وکلاء سمیت بہت ساری ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
فاضل جج نے ریمارکس میں کہا کل میں نے کہا تھا کہ سکیورٹی فراہم کی جائیں۔اس کیس میں کچھ بھی نہیں ہے۔صرف آپ سسٹم کے اندر آئیں ، باقی بعد میں دیکھ لیں گے ،عدالت جب آپ سسٹم میں نہیں ہونگے تو ہمارے لیے بھی مشکلات ہونگے ۔
عمران خان کاکہنا تھا کہ جس عدالت میں مجھے بلا رہے ہیں ، وہاں پر میرے قتل کیلئے ٹریپ بچھایا گیا ہے۔میں ڈیڑھ ماہ سے کہہ رہا تھا حملہ ہوگا لیکن سکیورٹی نہیں دی گئی۔میں ڈیڑھ ماہ سے کہہ رہا تھا حملہ ہوگا لیکن سکیورٹی نہیں دی گئی۔
عمران خان کیخلاف 94 مقدمات درج ہیں۔عدالت میں عمران خان کیخلاف مقدمات کی رپورٹ پیش کی گئی۔
چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ یہ مقدمات کی سنچری پوری کریں گے ۔ عمران خان کی بات پرعدالت میں قہقے لگ گئے۔
فاضل جج نے ریمارکس میں کہا کہ مسئلہ مس ہینڈل ہوا جس کی وجہ سے یہ حالات پیش آئے ۔آپ کو اسی سسٹم میں آنا ہوگا ۔آپ کو اپنی چیزوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
عمران خان کے وکیل نے استدعا کی ہمیں پندرہ دن کی حفاظتی ضماتیں دیں تاکہ ہم ساری عدالتوں میں پیش ہوکر بیل کروا لیں۔
عدالت کے حکم پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گاڑی کو احاطہ عدالت میں داخلے کی اجازت دی گئی۔کارکنوں کو ہائیکورٹ کے احاطے میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئےپولیس کو عمران خان کے عدالت لانے تک گرفتاری سے روک کر شام ساڑھے 5بجےتک عمران خان کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت تھوڑی دیر تک ملتوی کی تھی۔عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز کو ہدایت کی تھی کہ عمران خان کو عدالت تک پہنچایا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نےریمارکس دئیے تھے کہ وکلا نے استدعا کی ہے عمران خان کو عدالت پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا آپ اس استدعا پر کیا کہتے ہیں؟ آئی جی پنجاب نے کہا کہ عدالت جو حکم جاری کرے گی، عملدرآمد کریں گے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس استدعا سے متفق ہیں یا مخالفت کرتے ہیں؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آپ نے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد روکا۔جس پر جج نے ریمارکس دئیے میں نے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد سے نہیں روکا۔
بعدازاں عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کر تے ہوئےعمران خان کو عدالت لانے تک گرفتار کرنے سے روک دیا اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو ساڑھے چار بجے تک عدالت پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء فواد چودھری نے لاہور میں آپریشن رکوانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ میں زمان پارک کے باہر پولیس آپریشن روکنے سمیت دیگر درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا۔ تو آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ہم نے کسی علاقے کو نو گو ایریا نہیں بنانا۔ عدالت نے کہا کہ یہ مسائل اس لئے ہورہے ہیں ہم قوائد پر نہیں ہیں، صرف رولز کو فالو کریں۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ ہمارا فیصلہ ہوا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا ایک فوکل پرسن ہوگا۔
عدالت نے فواد چودھری سے مکالمے میں کہا کہ اگر آپ لوگوں کو سیکیورٹی نہیں ملتی تو آپ آئی جی پنجاب کو درخواست دیں جو طریقہ کار ہے، اگر آپ مطمئن نہیں ہوتے تو عدالتوں سے رجوع کرسکتے ہیں۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ کنٹینرز لگانا مناسب نہیں یہ ہمیں ایکسپورٹ کیلئے استعمال کرنے چاہئیں، آپ جو بھی چاہتے ہیں اس کو طریقہ کار سے کریں اور باقاعدہ درخواست دیں۔
فواد چودھری نے عدالت میں کہا کہ اب یہ لوگوں کی گرفتاریوں کیلئے رسائی مانگ رہے ہیں، ایک مقدمے میں 500 نامعلوم افراد کو شامل کیا گیا ہے، ایک مقدمے میں 2500 نامعلوم افراد شامل ہیں۔
پی ٹی آئی رہنماء نے کہا کہ اس سے ایک بار پھر حالات خراب ہوں گے، ان کو چاہئے ملوث افراد کو نامزد کریں، وہ افراد اپنا لیگل حق استعمال کریں۔