ایک نیوز :کراچی کے سابق میئرز اختیارات نہ ہونے کا شکوہ کرتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میئر کے اختیارات کیا ہیں؟ آئیے جانتے ہیں:
کراچی میٹرو پولیٹن اسمبلی 367 اراکین پر مشتمل ہو گی، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کو 155، جماعت اسلامی کے 130، تحریک انصاف 63، مسلم لیگ ن 14، جے یو آئی 4، تحریک لبیک کے پاس ایک نشست ہے۔
ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل سمیت شہر کی 106 سے زائد سڑکوں کی دیکھ بھال، تعمیر و مرمت کی ذمہ داری میئر کے پاس ہے۔ اسی طرح ان سڑکوں پر تعمیر پل، فلائی اوور اور انڈر پاس کی مرمت اور نئی تعمیرات کا ذمہ بھی میئر کا ہی ہے۔
صحت کے شعبے میں عباسی شہید یعنی تیسرے بڑے ہسپتال سمیت شہر میں دانتوں کے علاج و امراض قلب سمیت سات کے قریب ہسپتال کے ایم سی کے ماتحت ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے چڑیا گھر یعنی کراچی زو سمیت سفاری پارک 100 سے زائد چھوٹے بڑے پارکس اور ساحل سمندر پر واقع ایک سو سے زائد ہٹس کے نگرانی بھی میئر کراچی کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔
کراچی میں بلدیہ کی حدود میں اگر کہیں کوئی آتشزدگی کا واقعہ پیش آجائے تو اس کے لیے فائر بریگیڈ محکمہ موجود ہے۔ یہ محکمہ بھی میئر کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔
کے ایم سی کی حدود میں آپ بائیک کھڑی کریں یا کار،پارکنگ فیس کا تعین بھی میئر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کی ذمہ داری بھی اُن کے پاس ہے۔
آپ کے گھر کے سیوریج کے پانی کی نکاسی اور بارش کے پانی کی نکاسی، دونوں کی ذمہ داری میئر کے پاس ہے۔ یعنی برساتی نالوں کی دیکھ بھال و مرمت اُن کا ذمہ ہے۔
تو پھر میئر کے پاس کون سے اختیارات نہیں؟ اگر گھر کے باہر کچرا پڑا ہے تو یہ ذمہ داری سندھ سالڈ ویسٹ بورڈ کی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کے گھر کے نلکے میں پانی نہیں آتا تو یہ محکمہ کراچی واٹر بورڈ بھی حکومت سندھ کے ماتحت ہے۔ حال میں قانون سازی کرکے اس کو میئر کے ماتحت لایا جا رہا ہے۔
ہاؤسنگ، پولیس اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کا بھی میئر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے یہ بھی حکومت سندھ کے ماتحت ہیں۔
کراچی میں چھ کنٹونمنٹ بورڈز ہیں۔ شہر کا سب سے مہنگا علاقہ ڈیفنس بھی ان کے ماتحت ہے۔ ان بورڈز کے انتظامی امور سے بھی میئر کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ یہ اپنا شہری نظام خود چلاتے ہیں۔