مرتضی وہاب ’’ ماماز بوائے‘‘ اب نہ ڈلیور کرسکےتو پھر کب ؟

murtaza wahab and fouzia wahab
کیپشن: murtaza wahab and fouzia wahab
سورس: google

 ایک نیوز : مرتضی وہاب کی زندگی پر ان کی والدہ فوزیہ وہاب کے گہرے نقش ہیں  ، سنہ 2005 میں صوبائی دارالحکومت کراچی میں جس منصب کے لیے فوزیہ وہاب امیدوار تھیں لگ بھگ 18 سال کے بعد اُسی منصب پر ان کے بیٹے مرتضی وہاب کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔

دسمبر 1983 میں کراچی میں پیدا ہونے والے مرتضی وہاب نے ابتدائی تعلیم بی وی ایس پارسی سکول سے حاصل کی جس کے بعد گورنمنٹ کامرس کالج سے انٹر اور بعد میں لا کالج سے ایل ایل بی کیا۔ کالج میں  ایک روز معروف  کالمسٹ اور مصنف  محمد حنیف نے سیشن کے اختتام پر سب بچوں سے پوچھا کہ وہ بڑے ہوکر کیا بنیں گے تومرتضی وہاب کا جواب تھا ، مئیر کراچی ۔

سنہ 2007 میں گریجوئیشن کے بعد انھوں نے سٹی یونیورسٹی لندن سے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر بن جانے کے بعد اگلے ہی سال کراچی میں وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ جبکہ 2018 میں انہیں وزیر قانون نامزدکیا گیا۔

 مرتضیٰ وہاب کی والدہ فوزیہ وہاب اور ان کے والد وہاب صدیقی زمانہ طالب علمی سے ترقی پسند سیاست سے منسلک رہے۔

وہاب صدیقی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریش سے وابستہ تھے جبکہ فوزیہ کراچی یونیورسٹی کی طلبہ یونین میں بھی رہیں۔

وہاب صدیقی پی ٹی وی پر اینکر پرسن اور بعد میں ایک انگریزی میگزین کے ایڈیٹر کے منصب پر فائز رہے۔

صحافتی تحریک کے دوران وہ جنرل ضیا الحق کے دور میں پابند سلاسل بھی ہوئے جبکہ فوزیہ وہاب نے سیاست سے دور نجی زندگی کے ساتھ ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔

ان کے شوہر وہاب صدیقی 1993 میں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کر گئے۔

سنہ 1994 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب بینظیر بھٹو وزیر اعظم اور مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ وزیر اعلیٰ تھے، فوزیہ وہاب کو پارٹی کے شعبے خواتین کی انفارمیشن سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ تب ایک طویل عرصے کے بعد ان کی سیاست میں واپسی ہوئی۔

سنہ 2002 میں وہ خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں جب ایمرجنسی کا نفاذ کیا تو فوزیہ وہاب کو بھی ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا۔

سنہ 2008 کے انتخابات میں بھی وہ مخصوص نشست پر قومی اسمبلی پہنچیں۔ انھیں پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات کی ذمہ داری دی گئی۔

فوزیہ صدیقی کو زندگی نے زیادہ مہلت نہیں دی اور سنہ 2012 میں گال بلیڈر کے آپریشن کے دوران ان کی وفات ہو گئی۔