ایک نیوز: وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف کیس میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔
تحریری جواب میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کردی۔ کہا درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیکر خارج کی جائے۔
تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے آئینی حقوق سلب نہیں ہوتے، فوجی تنصیبات پر حملوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہئے۔
وفاقی حکومت کا مؤقف ہے کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین سے بھی پہلے کے موجود ہیں، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو آج تک چیلنج نہیں کیا گیا، ان ایکٹ کے تحت اٹھائے گئے تمام اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات کو منظم انداز سے نشانہ بنایا گیا۔ حملوں کا مقصد ملکی سیکیورٹی اور فوج کی قدر کم کرنا تھا، کم وقت میں ملک بھر میں املاک پر حملے منظم منصوبے کا ثبوت ہے۔ ور کمانڈر ہاؤس، جی ایچ کیو، پی اے ایف بیس پر ساڑھے 5بجے حملہ ہوا، پنجاب میں تشدد کے 62 واقعات میں 250 افراد زخمی ہوئے۔
سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ فوجی عدالتوں کیخلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے، کیس کی سماعت کرنے والی بینچ کے رکن س یحییٰ آفریدی بھی فل کورٹ پررائے دے چکے ہیں۔
دوسری جانب فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف کیس میں صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کی درخواست بھی سماعت کیلئے منظور ہوگئی۔ رجسٹرار آفس نے صدر سپریم کورٹ بار کی درخواست کو نمبر الاٹ کردیا۔ سپریم کورٹ کا 6 رکنی لارجر بینچ کل فوجی عدالتوں کیخلاف مقدمہ کی سماعت کرے گا۔