ایک نیوز : چئیرمین پرسن پاکستان مسابقتی کمیشن راحت کونین نے لاہور اکنامک جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے ڈسکشن پروگرام میں اظہار خیال کیا جہاں ان کا کہنا تھا کہ مسابقتی قوانین کے عمل درآمد سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں 25 سے 30 فی صد کم ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق راحت کونین کا کہنا تھا کہ قانون کی عمل داری سے پیداواری شعبے میں ہونے والے گٹھ جوڑ کے خاتمہ ممکن ہے صدر لیجا سدھیر چودھری بھی اس موقع پر موجود تھے۔
راحت کونین کا کہنا تھا کہ ٹی بلز کی نیلامی میں بے ضابطگیوں پر انکوائری شروع کر دی گئی ہے اور جلد ہی نتائج سامنے آئیں گے تاہم انکوائری میں بہت عرصہ لگ جاتا ہے۔ عوام جلد نتائج چاہتے ہیں جو فوری ممکن نہیں ہوتا ہے۔ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے ٹینڈرز میں بھی بے ضابطگیوں پر انکوائری جاری ہےکیو نکہ ہر ٹینڈر میں 10 سے 12 کمپنیاں حصہ لیتی ہیں اور ایک دوسرے کو دلوانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو فنکشنل مارکیٹ کی ضرورت ہے۔ سیمنٹ سیکٹر کے قیمتوں کے حوالے گٹھ جوڑ کے خلاف پنجاب، کے پی کے کی انکوائری مکمل اور سندھ ،بلوچستان پر عدالتی حکم امتناعی ہے۔ چیئرپرسن سی سی پی نے کہا کہ صوبائی حکومتیں گندم خریداری سے دور رہیں۔ اشیائے خورونوش کی خریداری اور سبسڈی کا گردشی قرضہ 550 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
مسابقتی کمیشن ٹی بلز کی نیلامی میں بے ضابطگیوں اور کارٹیلائزیشن کی انکوائری کر رہا ہے۔ مرکزی بینک ٹی بلز بے ضاطگی انکوائری میں مسابقتی کمیشن کی مدد کرے۔ کمرشل بینکس ٹی بلز انکوائری میں مسابقتی کمیشن کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔ آٹو موبیل سیکٹر میں قیمتوں کی فکسیشن کے حوالے سے انکوائری چل رہی ہے۔
راحت کونین کا کہنا تھا کہ پاکستان گاڑیوں میں حفاظتی سہولیات میں بھی بہت پیچھے ہے۔ بھارت میں گاڑیوں میں حفاظتی 70 فی صد جبکہ پاکستان میں صرف 11 فی صد ہیں۔ پولٹری سیکٹر کو کئے گئے 10 کروڑ روپے کے جرمانہ کو سپریم کورٹ نے اڑھائی کروڑ روپے کیا۔ انکوائری کرنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سی سی پی کام نہیں کر رہا۔
راحت کونین کا کہنا تھا کہ گٹھ جوڑ کرنے والی کمپنیوں اور ایسوسی ایشنز کو 2020 سے اب تک 44 ارب 80 کروڑ کے جرمانے کئے۔ گٹھ جوڑ کرنے والی کمپنیوں کی 139 سماعتیں ہوئی اور 20 مقدمات میں احکامات جاری ہوئے۔ اڑھائی سال کے دوران 176 شوکاز جاری کئے گئے اور 43 انکوائریاں مکمل کی گئیں۔ گٹھ جوڑ کی شکایات ملنے پر 24 کمپنیوں اور ایسوسی ایشنوں کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے۔
9 پالیسی نوٹ جاری کئے اور 39 عوامی اگہی سیشن کئے گئے۔ چئیر پرسن کا مزید کہنا تھا کہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں میں ٹرانسفارمر، اسٹیل اسٹریکچر، میٹر اور کیبل کے ٹینڈرز میں بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں 6 بڑے پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کی عوام کو گمراہ کن منافع کی اطلاع پر انکوائری شروع کر دی۔ پاکستان نے ترقی کرنا پے تو زمین کی خریدوفروخت کے کاروبار سے نکلنا ہوگا۔ پراپرٹی کے علاوہ دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب و سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ راحت کونین نے کہا کہ کھاد کی قیمتوں کے حوالے سے پرائس فکسنگ ہو سکتی ہے۔ چیئرپرسن مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کو تیز تر کرنے کے لئے ریگولیٹری ٹریبونل بنائے جانا چاہیئے۔