ایک نیوز: سپریم کورٹ نے سابق سی سی پی او لاہور کی ٹرانسفر کے کیس میں ریمارکس دیےکہ انتخابات کو 90 دن میں ہونا ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ 90 دن ختم ہور ہے ہیں، الیکشن کمیشن آخر کر کیا رہا ہے؟ الیکشن کمیشن کا واحد کام انتخابات کرانا ہے اور وہ اس کے لیے بھی مزید وقت مانگ رہا ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ گھڑی بہت تیز چل رہی ہے، ٹک، ٹک، ٹک۔ 90 روز ختم ہونے والے ہیں اور الیکشن کمیشن کاکام ہی شفاف الیکشن کرانا ہے،اس کیلئے بھی وقت مانگ رہے ہیں۔الیکشن کمیشن آخر کر کیا رہا ہے؟
سماعت کے دوران سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کی جانب سے بار بار بولنے پر جسٹس منیب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بات کرنے کے دوران مجھے ٹوکنے کی جرات نہ کریں۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ مجھے بنیادی قانون معلوم ہے، اس پر جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی قانون پتا ہونے سے آپ وکیل نہیں کہلائیں گے۔
عدالت نےریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کا معاملہ پہلے ہی چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیج چکے ہیں۔
اس سے قبل جسٹس اعجاز الاحسن نے غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کے کیس کی سماعت کے آغاز پر استفسار کیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کہاں ہیں؟ جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر کی طبیعت ناساز ہے۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے 23 جنوری کو غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کی زبانی درخواست کی۔ 24 جنوری کو تحریری درخواست آئی۔ 6 فروری کو منظوری دی۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا عام حالات میں بھی زبانی درخواست پر احکامات جاری ہوتے ہیں؟جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ زبانی درخواست آئی، منظوری ہوئی اور عمل بھی ہوگیا۔ عملدرآمد کے بعد خط و کتابت کی گئی۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری ادارے زبانی کام کرتے ہیں؟ کیا آئینی ادارے زبانی احکامات جاری کر سکتے ہیں؟چیف الیکشن کمشنر نہیں، تبادلوں کی منظوری الیکشن کمیشن دے سکتا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو تقویض کیے ہیں؟جس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے عدالت میں بتایا کہ اختیارات تقویض کرنے کی کوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں غلام محمود ڈوگر کا حکم قانون کے برخلاف تھا۔ غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا حکم پہلے زبانی اور پھر تحریری دیا گیا۔ عدالت نے سابق سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کو عہدے پر دوبارہ بحال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی ٹرانسفر پوسٹنگز پر ریکارڈ پیش کرنے کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا مسترد کردی۔
بعد ازاں عدالت نے 90 دنوں میں انتخابات نہ کرانے کے خلاف درخواست پر سماعت سے انکارکردیا اور سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی ٹرانسفر کا کیس نمٹا دیا۔