سی سی پی او لاہور غلام محمودڈوگر اپنےعہدےپربحال

سی سی پی او لاہور غلام محمودڈوگر اپنےعہدےپربحال
کیپشن: سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود کے تبادلےکا آرڈر معطل

ایک نیوز:سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا جس میں لاہور پولیس کے چیف غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا آرڈر معطل کر کے انہیں اپنےعہدےپربحال کردیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن نے غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کے کیس کی سماعت کے آغاز پر استفسار کیا کہ چیف الیکشن کمشنر کہاں ہیں؟ جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر کی طبیعت ناساز ہے۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے 23 جنوری کو غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کی زبانی درخواست کی۔ 24 جنوری کو تحریری درخواست آئی۔ 6 فروری کو منظوری دی۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا عام حالات میں بھی زبانی درخواست پر احکامات جاری ہوتے ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ زبانی درخواست آئی، منظوری ہوئی اور عمل بھی ہوگیا۔ عملدرآمد کے بعد خط و کتابت کی گئی۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری ادارے زبانی کام کرتے ہیں؟ کیا آئینی ادارے زبانی احکامات جاری کر سکتے ہیں؟چیف الیکشن کمشنر نہیں، تبادلوں کی منظوری الیکشن کمیشن دے سکتا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو تقویض کیے ہیں؟جس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے عدالت میں بتایا کہ اختیارات تقویض کرنے کی کوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں غلام محمود ڈوگر کا حکم قانون کے برخلاف تھا۔ غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا حکم پہلے زبانی اور پھر تحریری دیا گیا۔ عدالت نے سابق سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کو عہدے پر دوبارہ بحال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی ٹرانسفر پوسٹنگز پر ریکارڈ پیش کرنے کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا مسترد کردی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام ہی شفاف الیکشن کرانا ہے اور اس کے لیے بھی وقت مانگ رہے ہیں۔عدالت نے اسلام آبادہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی پنجاب میں انتخابات کی درخواست پر حکم جاری کرنے کی استدعا بھی مسترد  کردی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے صرف سی سی پی او لاہور کے تبادلے کا کیس ہے۔ پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کا معاملہ پہلے ہی چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیج چکے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ چیف الیکشن کمشنر کو کس نے فون کرکے ٹرانسفر کی درخواست کی ؟ مسٹر ایکس کو کہہ دیتے صبر کریں کمیشن آپ کی درخواست پر فیصلہ کرے گا۔ چیف الیکشن کمشنر خود ہی پورا الیکشن کمیشن بن کر کیسے فیصلے کررہے ہیں ؟

ڈی جی لاء نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آبزرویشن کی روشنی میں تبادلوں کا حکم دیا،سپریم کورٹ نے 2013 میں اپنے فیصلے میں آبزرویشن دی تھی۔

جسٹس منیب اختر  نے استفسار کیا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں تو قانون سازی بھی ہوچکی ہے،عدالتی فیصلہ صرف سیکرٹریز کے حوالے سے تھا،الیکشن کمیشن نے تو اسسٹنٹ کمشنرز کے بھی تبادلوں کا حکم دے دیا،صوبائی حکومت کی درخواست کے بغیر کمیشن کیسے حکم دے سکتا ہے؟
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ زبانی احکامات کی قانونی حیثیت سے بھی آگاہ کریں،سپریم کورٹ زبانی احکامات کے حوالے سے متعدد فیصلے جاری کر چکی ہے۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 5 نومبر کو وفاقی حکومت نے گورنر ہاؤس پر پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے دھاوا بولنے کے بعد اُس وقت کے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو معطل کردیا تھا اور انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

وفاق کی جانب سے معطلی کے باوجود غلام محمود ڈوگر نے عہدے کا چارج نہیں چھوڑا تھا جب کہ انہوں نے اپنی معطلی لاہور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کی تھی۔اس وقت کی پنجاب حکومت نے بھی غلام محمود کی خدمات وفاق کو دینے سے انکار کیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے سی سی پی او کو ایک وارننگ لیٹر بھی جاری کیا تھا۔تاہم بعد میں یہ معاملہ سپریم کورٹ جا پہنچا تھا جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے غلام محمود ڈوگرکو واپس عہدے پر بحال کیا تھا۔گزشتہ ماہ 23 جنوری کو ایک بار پھر پنجاب میں نگران حکومت کے قیام کے بعد غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔