ایک نیوز: پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کے معاملے میں نئی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے جسٹس جواد حسن کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے انٹراکورٹ اپیل دائر کردی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن حکام کی طویل مشاورت کے بعد اس فیصلے کو چیلنج کردیا گیا ہے۔
اپیل میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سنگل بینچ نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری انتخابات کرانا ہے تاریخ دینا نہیں۔ انتخابات کا اعلان گورنر ہی کرسکتے ہیں، سنگل بینچ کا حکم آئین کے برعکس ہے۔ اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ سنگل بینچ کا حکم کالعدم قرار دے۔عدالت سنگل بینچ کے فیصلے کیخلاف حکم امتناع جاری کرے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ سپریم کورٹ میں بھی اپنے اس موقف کا بھرپور دفاع کرے گا کہ آئین کے تحت یا قانون کے تحت کمیشن کو یہ مینڈیٹ حاصل نہیں کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آزاد و شفاف انتخابات کرانے کیلئے بیوروکریسی میں رد و بدل کے اختیارات کے حوالے سے کمیشن کے موقف کا دفاع کرنے کے علاوہ، الیکشن کمیشن نے جمعرات کو یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ لاہور ہائی کورٹ میں ایک سول متفرق درخواست دائر کرے گا جس میں لاہور ہائی کورٹ کے 10 فروری 2023 کو سنائے گئے فیصلے پر عملدرآمد میں کمیشن کو پیش آنے والی مشکلات میں رہنمائی طلب کی جائے گی۔
اس کے علاوہ، کمیشن لاہور ہائی کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سنائے گئے اس فیصلے کیخلاف ایک انٹرا کورٹ اپیل بھی دائر کرے گا۔ جس کی منظوری دیدی گئی ہے۔ اس کے بارے میں ماہرینِ قانون کی رائے ہے کہ کمیشن اس بات پر غور میں ناکام رہا ہے کہ آئینی شقیں (جنہیں الیکشن ایکٹ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے) الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی ذمہ داری نہیں دیتیں۔
الیکشن کمیشن کو لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے اور نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے وجوہات بتائی جائیں اور گورنر سے مشاورت کی جائے کیونکہ وہ صوبے کے آئینی سربراہ ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ انتخابات آئین میں وضع کردہ مینڈیٹ کے مطابق 90 دن کے اندر ہی ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق، الیکشن کرانے کیلئے تیاری، تنظیم اور عمل الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور یہ اعلان ریاست یا صوبے کے متعلقہ سربراہ کا کام ہے۔ صوبے میں عام انتخابات کی صورت میں، گورنر کو تاریخ کا اعلان کرنا ہوتا ہے جب کہ نیشنل اسمبلی کیلئے تاریخ کا اعلان صدر مملکت کا کام ہے۔
کمیشن کی رائے ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے واحد جج کی جانب سے کی گئی تشریح آئین اور الیکشن ایکٹ کی شقوں کی خلاف ورزی ہے۔ ان شقوں کے تحت گورنر اور صدر کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے صدر مملکت کے الیکشن کی تاریخ کے اعلان کا معاملہ آرٹیکل 48 میں درج ہے جب کہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے گورنر کے اختیارات کا معاملہ آرٹیکل 105 میں درج ہے۔ اس اسکیم کے تحت گورنر یا صدر دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرتے ہیں۔
آرٹیکل 224 مذکورہ بالا دونوں آرٹیکل کی تفصیل کے متعلق ہے جن میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان اور نگراں کابینہ کا قیام شامل ہے لہٰذا، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جس طرح آرٹیکل 105 اور 224 پر تبصرہ کیا گیا ہے وہ قانون کی واضح تشریح کے اصولوں کے خلاف ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پنجاب اور کے پی حکومتوں کی جانب سے بتا دیا گیا ہے کہ کمیشن کی جانب سے الیکشن کرانے کیلئے فنڈز کا مطالبہ ملک کی ٹوٹی پھوٹی معاشی صورتحال کے تناظر میں پورا نہیں کیا جا سکتا، اس لیے معاشی استحکام تک الیکشن ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 50 اور 51 کی روشنی میں یکم فروری 2023 کو لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ایک خط بھی لکھا تھا کہ ماتحت جوڈیشل افسران کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسران لگانے کیلئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشورہ کیا جائے۔
اس کے جواب میں رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ نے چیف جسٹس کی جانب سے دی جانے والی ہدایت سے آگاہ کرتے ہوئے ڈی آر اوز اور آر اوز کیلئے عدلیہ کی خدمات کی فراہمی سے معذرت ظاہر کی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ کمیشن نے گورنر پنجاب سے بھی رجوع کیا تاکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر جنرل الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جا سکے جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا۔ تاہم، گورنر نے کہا کہ صوبائی اسمبلی انہوں نے تحلیل نہیں کی لہٰذا تاریخ کا اعلان وہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ مذکورہ فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے قانونی مشاورت کریں گے۔
انہوں نے مزید واضح کیا کہ مذکورہ فیصلے کے باوجود آئین یا الیکشن ایکٹ میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں الیکشن کمیشن اور گورنر آفس کے درمیان الیکشن کی تاریخ کے اعلان کیلئے مشاورت ہونا چاہئے۔