چیئرمین سینیٹ صادق سنجرابی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اوگرا ترمیمی بل اور دوسرا اوگرا ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے مشتاق احمد نے کہا کہ اوگرا کو اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی مرضی کی قیمتوں کا تعین کرے، اوگرا کو ایل این جی کی قیمت کے تعین کا اختیار بھی نہیں دے سکتے، یہ اختیار ماضی میں پبلک ہیئرنگ کے پاس تھا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم صوبے کی جانب سے فیصلہ خود نہیں کر سکتے، قیمت کے تعین پر پبلک ہیئرنگ لازم ہے، آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ بل کی توثیق سی سی آئی سے کرائیں۔
حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے اوگرا ترمیمی بل اور دوسرے اوگرا ترمیمی بل پر اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا جبکہ دلاور خان گروپ نے حکومتی بل کے حق میں ووٹ دیا۔ اپوزیشن کے واک آؤٹ کر جانے کے باعث بل کی مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں پڑا۔
یاد رہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کے اراکین کی تعداد حکومت سینٹرز سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود حکومت نے دیگر بلز کی طرح سینیٹ سے اوگرا ترمیمی بل بھی منظور کرا لیا ہے۔
ترمیمی بل وفاقی حکومت یقینی بنائے گی کہ اوگرا کی جانب سے لگایا گیا تخمینہ قدرتی گیس کے تخمینے سے کم نہ ہو، حکومت اوگرا کی تجویز کردہ قیمت کو 40 دن میں نوٹیفائی نہ کرے تو اوگرا قیمت نوٹیفائی کر دے گی۔
دوسرے ترمیمی بل کے مطابق ایل این جی اور آر ایل این جی کی لائسنسنگ اور قیمت کو ریگولیٹری فریم ورک میں شامل کیا جائے گا، اوگرا کو آر ایل این جی اور ایل این جی کی قیمت طے کرنے کا اختیار ہو گا۔
دوسرے اوگرا ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اوگرا کو بغیر کسی پبلک ہیئرنگ کے امپورٹڈ گیس اور ملک میں پیدا گیس کی قیمت میں اضافے کا اختیارہو گا۔