ایک نیوز :آئی جی پنجاب ڈاکٹرعثمان انور کاکہنا ہے کہ سکیورٹی تھریٹ کے حوالےسےاہم شخصیات کی سکیورٹی کا فیصلہ انٹیلی جنس کمیٹیاں کرتی ہیں۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹرعثمان انور کا ایک نیوز کو خصوصی انٹرویودیتے ہوئے کہنا تھاکہ بانی تحریک انصاف عمران خان منظورشدہ سکیورٹی سے زیادہ سکیورٹی دی گئی تھی ۔10یا20افراد کے بجائے187اہلکار زمان پارک میں تعینات کئے گئے تھے۔ 1998میں نواز شریف اور شہباز شریف کے روٹ پر دھماکا ہوا تھا ایسی شخصیت جو کافی عرصے سے انڈر تھریٹ ہے، انہیں سکیورٹی دینا ضروری ہے انٹیلی جنس کمیٹیاں جو فیصلہ کرتی ہیں اس کے حساب سے ہم سکیورٹی مہیا کرتے ہیں۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے پولیس حراست میں خواتین پر تشدد کی بھی سختی سے تردید کردی اور کہا کہ ہر تھانے میں کیمرہ لگاہے، یہ بات بالکل غلط ہے کہ پولیس لوگوں پر تشدد کرتی ہے مجھے تھانہ بتائیں میں آپ کو اس کے پچھلے دو دن کی ریکارڈ نکال کر دکھادیتا ہوں۔
ڈاکٹرعثمان انور کاکہنا تھا کہ وفاقی حکومت سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک ایجنسی بنارہی ہے ہم سوشل میڈیا کی کسی جھوٹی پوسٹ پر ایکشن نہیں لیتے ۔ہم نے سوشل میڈیا کے ہر جھوٹے الزام کا جواب دیا ۔میری ذات یا پولیس کے بارے میں جتنا بھی پروپیگنڈا ہوتا رہے۔ ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ہماری سوشل میڈیا پر جتنے ویوز ہیں اتنے کسی سیاسی جماعت کے نہیں۔ ہمیں برا بھلا کہنے والے کو برداشت کیا، لیکن وردی کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کرینگے۔
آئی جی کا سانحہ 9مئی کے حوالےسے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک محترمہ نےکہا جناح ہاؤس پر حملہ کرنے والے آئی جی پنجاب کے بندے تھے ہم نے ثابت کیا کہ وہ ہمارے نہیں، ان کے بندے تھے پھر کہا گیا کہ جان بوجھ کر جناح ہاؤس پر حملہ کرنےوالوں کو روکا نہیں گیا ہم نے بطور ثبوت ویڈیو کے ساتھ بتایا کہ جناح ہاؤس پر وہ لوگ کیا کیا کررہے تھے 175پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا گیا،108گاڑیاں ضائع کی گئیں وہ عوام کے ٹیکس کے پیسے سے خریدی گئی تھیں۔