کہ تم اک پارس ہو 

mother and child
کیپشن: mother and child
سورس: google

شہر بانو
سوئی ہوئی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی
دل رات سے مضطرب تھا، بے چینی کاندھے پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔۔
عجب کیفیت تھی، کبھی ایک طرف کروٹ لیتی تو کبھی دوسری طرف. سمجھنے سے قاصر تھی کہ اتنے اضطراب نے وجود کو کیوں گھیرا تھا. گزشتہ رات اس کی زندگی کا کل اثاثہ دوستوں کے ساتھ ناران کی سیر پر نکلا تھا. نکلتے وقت ماں کے آنچل سے چند دعائیں اپنے پہلو میں سمیٹ کر چلا تھا ۔۔۔
اس کے باپ کے گزر جانے کے بعد مشکلات کی انگلی تھام کر اسے جوان کیا تھا، بڑھاپے کا وہ واحد آسرا تھا جو بار بار اجازت مل جانے کا طلب گار تھا۔۔۔
بار بار اسے ٹوکا جا رہا تھا مگر وہ ایک ہی بات پر زور دیے ہوئے تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کی ماں کا دل ہر اس لمحے جس وقت اجازت کی فریاد سامنے رکھی جاتی تھی کسی مٹھی میں اس طرح بند ہوجاتا تھا کہ اس کی سانسیں لڑکھڑانے لگ جاتی تھیں  
مگر وہ بضد تھا، لحظہ بہ لحظہ کبھی ماں کے پہلو میں بیٹھ جاتا تو کبھی اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر اجازت طلب کرنے کی کوشش کرتا تو کبھی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتا۔۔۔
وہ اس تلخ حقیقت سے واقف تھی کہ بیٹے کتنی مشکل سے جوان کیے جاتے ہیں،  چونکہ ماں تھی تو اس کو کھونے کا سوچ کر ہی وجود لرز جاتا تھا. یہی سوچ دماغ کو الجھائے ہوئے تھی کہ اگر یہ قسمت سے چھن گیا تو اس کا اور وہ جو اپنے بھائی کی شہہ پر اتراتی ہے بھلا اس معاشرہ میں کیسے خود کو سمائے گی ۔۔۔
اس کو بچپن سے ایک یہی سبق دیا گیا تھا کہ بنت حوا کے لیے فقط ابن آدم کے ساتھ ہونے کا احساس اسے تخیل کی سب سی نچلی سیڑھی سے اٹھا کر حقیقت کے ساتویں آسمان پر بٹھا دیتا ہے۔۔
دوسری جانب وہ اجازت طلب کر چکا تھا. آدھا راستہ بھی طے ہو چکا تھا. کہیں گاڑی کو روک کر سرائیکی گانوں پر جھمر ڈالا جا رہا تھا تو کہیں ان جان لیوا ناران کی سڑکوں پر ریس لگائی جا رہی تھی۔۔۔
عجب افراتفری کا عالم تھا. کبھی وہ دوسرے دوست سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے سپیڈ بڑھاتا تو کبھی بریک لگاتا یہ بھولتے ہوئے کہ کسی کا کمر کا زور ہے، کسی کی امید تو کسی کی آس۔۔۔
ناجانے کیوں بھول گیا تھا کہ ماں کا واحد سہارا ہے، جواس کی حفاظت کی دعا لبوں پر اوڑھے انتظار میں بیٹھی ہے۔۔۔
باپ کے بعد وہی اس کی دنیا تھا، وہ یہ سب بھول کر زندگی اور موت کی جنگ میں خود کو انڈیلتے ہوئے اس سفر پر رواں دواں تھا
وہ تو اس معاشرے کے المیے سے بھی خوب واقف تھا کہ آپ کے باپ بھائی کی ہستی ہی آپ کے وجود کو سمیٹے ہوئے ہے
اس رات جب فون کی گھنٹی بجی، تو وہ آواز کسی ہتھیار کی مانند اس کی ماں کی روح کو جھنجھوڑ رہی تھی
اس رات وہ فون کی گھنٹی...   (جاری ہے)