خالد کاشمیری
منظر کسی قدر دلدوز ہے
ہر طرف بے چارگی اور مایوسی کا سماں ۔۔۔۔
لاکھوں کروڑروں لوگ کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ تعلیم، تجارت ، روزگار غرضیکہ زندگی کے ہر میدان میں دیگر اقوام سے بہت پیچھے پسماندہ مسلمان۔۔۔۔ اکثریت چھوٹے چھوٹے تنگ وتاریک گھروں کے باسی، روکھی سوکھی پر گذارا کرتے ۔۔۔۔ یکایک ایک صاحب کردار نے اس نیم جان لوگوں میں زندگی رمق پیدا کردی اپنے مدمقابل مخالفین سے بے خوف ہوکر انہوں نے نعرہ لگانا شروع کردیا ’’ لے کررہیں گے پاکستان‘‘ ۔
اس نعرے کو عملی شکل دینے کے لئے قوم کو آگ اور خون کے دریا نہیں بلکہ سمندر سے گذرنا پڑا ۔ ان کا قائد جس ملک کا جغرافیہ ترتیب دے چکا تھا وہ بالاخر معرض وجود میں آگیا۔ اس راہ میں لاکھوں فرزندان اسلام ، بچے ، بوڑھے ، مائیں بہنیں قربان ہوگئیں۔50 ہزار کے قریب بیٹیاں اغوا ہوئیں۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ قافلوں کی شکل میں پاکستان پہنچنے والوں میں لاکھوں مردو زن شامل تھے۔ دفتری نظام ناپید، مہاجرین کا بے یارومدد گار سمندر مگرکوئی خوف زدہ یا پریشان نہیں۔ سبھی راضی برضا ۔۔ دفتری کام شروع ہوئے تو چائے کی پیٹیاں میز بنا لی گئیں۔۔ کاغدات کو نتھی کرنے کے لئے کلپ نہ ملے تو ببول کے کانٹے کام آئے۔ جذبہ تعمیر کچھ ایسا موجزن تھاکہ ناممکنات ، ممکنات کے سانچوں میں ڈھل گئے۔ ملک واقعی ’’آزاد ملک‘‘ کی شکل اختیار کرگیا۔
ملک کے دفاع کے لئے منظم اور بہادر فوج موجود، ملکی آئین تشکیل پا گیا۔ اس کے تحت سیاسی اقتصادی اور معاشرتی نظام استوار کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں کہ اچانک پوراملک جنون میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ ملکی آئین منسوخ ہوجاتا ہے ، جمہوری سیاست پر پابندی اور اظہاررائے خلاف قانون، ملک کے چوتھے ستون کو کیا سوجھی کہ اقتدار پرجھپٹ پڑا۔
ایک انوکھا نظام جمہوریت اور فردواحد کے آمرانہ اور آئین کے خلاف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ مادر ملت فاطمہ جناح میدان میں آئیں تو تاحد نظر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کی باتیں سننے کے لئے پہنچ جاتا مگر وقت کے آمر کے مقابلے میں انہیں ہرادیا گیا مادرملت کو ہرانے والے معنوی طور پر ہار گئے اور پھر رسوائی کے ساتھ اپنے ہی آئین پر خاتمہ بالخیر کی مہر لگائی اور تاریخ میں رسوائی ان کا مقدر ٹہری۔
مگر اسی عہد اقتدار میں یہ بھی ہوا کہ جس ملک کی تعمیر میں سب ایک ہوئے تھے اس کی املاک کی بے رحمی سے بندر بانٹ ہوئی۔ اسی سے درحقیقت ارض وطن کے وسائل کو بے دردی اور بے غیرتی سے لوٹنے اور عوام کو افلاس کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کی روح فرسا داستان شروع ہوتی ہے ۔
تاہم اہل فکر ونظر کے لئے یہ بات سوچنے کی ہے کہ 1958 تک پاکستان میں کرپشن نام کی کوئی چیز ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ۔ سیاستدانوں سے بھول چوک ہونا کوئی انہونی نہیں مگر وہ بدعنوان نہیں تھے اسی طرح بیوروکریسی بھی بدعنوان یا نااہل نہیں تھی۔ غلط بخشیوں اور پاکستان کی املاک کو ریوڑیوں کی طرح بانٹنے کی شروعات 1958 کے مارشل لا کے بعد ہوئی کسی بھی نظام کے تحت سہی لیکن پارلیمنٹ وجود میں آچکی تھی اس سے گویا پارلیمانی خرمستیوں کا باقاعدہ آغاز ہوگیا جو اپنے کمال کی تمام حدوں کو پار تو کرچکا ،سیر ابھی تک نہیں ہوا۔
پارلمیانی خرمستیوں کے حمام میں خود کو نہال کرنے والوں میں قطعی طور پر ایسا طبقہ شامل نہیں تھا جو ناخواندہ کہلاتے ہیں کھیتوں میں خون پسینہ ایک کرنے والے مزارعین ، کارخانوں میں سرگرم عمل مزدور، دفتروں میں کام کرتے کلرک ایسے طبقات ہیں جونہ اختیارات اقتدار ار کرسیوں تک پہنچنے کے وسائل رکھتے نہ خواہش ۔ کرپشن اور ملکی وسائل کی لوٹ ماران لوگوں کے حصے میں آئی اور چلی آرہی ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے اور اچھے سے اچھے عہدوں پر فائز رہے ۔
ملکی تاریخ میں کرپشن کے مکروہ کاروبارکو بام عروج پہنچانے میں معمولی خواندہ یا ان پڑھ عوام کا رتی بھر حصہ نہیں جمہوری ایوانوں تک جس تعلیم اور مراعات یافتہ طبقے کو جانے کا موقع ملا تاریخ کا یہ سیاہ باب بھی انہیں کے نام ہے یہی وہ ’’پارلیمانی خرمستیاں ‘‘ ہیں جو پارلیمان پر قابض طبقہ کے ہاتھوں سرانجام پائیں اور اس کی تفصیل ڈیجیٹل قارئین کے گوش گذار کرنا ضروری خیال کیا گیا ۔آئندہ اقساط میں آپ جان سکیں گے کہ اس وسائل سے بھرپور ملک کی بدقسمت عوام کو کیسے پسماندہ رکھا گیا ۔۔ ان کے وسائل اشرافیہ نے اپنی عیاشییوں پر کیسے لٹائے اور معمولی مفادات کے لئے شہریوں تک کو گروی کیسے رکھا گیا،،،،،،،