عوام کو اکسانے کا کیس، علی امین گنڈا پور کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

عوام کو اکسانے کا کیس، علی امین گنڈا پور کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

ایک نیوز: عدالت نے پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈا پور کو ریاست کے خلاف مبینہ جنگ کیلئے عوام کو اکسانے کے کیس میں  درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج سکندرخان نے علی امین گنڈاپور کی درخواست ضمانت پر  کیس کی سماعت کی۔علی امین گنڈا پور کے وکیل   شیرافضل نے عدالت میں دلائل دیے کہ علی امین گنڈاپور پر اسلحہ اکٹھاکرنے کا الزام لگایاجو کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ علی امین گنڈاپور پر تھانہ گولڑہ میں درج مقدمہ خیالی باتوں پر مبنی ہے۔  پراسیکیوشن بتائے کون سے افراد اور کون سا اسلحہ برآمد ہوا ۔

جج نے وکیلِ سے استفسار علی امین گنڈاپور پر کس بات کی سازش کرنے کا الزام ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ پراسیکیوشن کو خود معلوم نہیں علی امین گنڈاپور نے کس بات کی مبینہ سازش کی ہے۔علی امین گنڈاپور پر ریاست کے خلاف مبینہ جنگ کے اعلان کا الزام ہے۔ علی امین گنڈاپور نے ملک کی سالمیت کے خلاف جنگ کا کبھی بیان نہیں دیا ہے۔ریاست کیا اتنی کمزور ہےکہ دو افراد نے بات کی اور ملک کی سالمیت کو خطرہ ہوگیا؟اسلام آباد ہائیکورٹ نے علی امین گنڈاپور کے خلاف کچھ عرصہ قبل درج مقدمات کو خارج کیا تھا۔

پی ٹی آئی رہنما کے وکیل شیرافضل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مدعی مقدمہ مجسٹریٹ ریاست کے اختیارات یا ریاست نہیں سمجھاجاسکتا ہے۔بغاوت کا مقدمہ صرف ریاست خود درج کرتی ہے۔علی امین گنڈاپور کا قصور عمران خان کا ساتھ دیناہے۔آئی جی اسلام آباد عمران خان اور تحریک انصاف کے پیچھے پڑاہواہے۔اسلام آباد کی تاریخ میں ایسا آئی جی نہیں آیا جس نے اپنے اختیارات کااتنا ناجائز فائدہ اٹھایاہو۔تحریکِ انصاف کے خلاف مقدمات درج ہونے کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہورہا ہے۔60 کے آس پاس حکومت کے خلاف مقدمات درج کرنے والے ہیں۔ وکیلِ نے علی امین گنڈاپور کی درخواستِ ضمانت منظور کرنے کی استدعا کی ہے۔

 پراسیکوٹر عدنان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیمرہ سے ریکارڈنگ لےلی اور فورینسک کے لیے لیبارٹری کو بھیج دی ہے۔ جج نے استفسار کیا کہکیا نجی چینل نے خود ریکارڈنگ چلا دی؟ آڈیو بننے کی تاریخ ہےکیا؟ جس پر پراسیکوٹر عدنان نے کہا کہ معلوم نہیں علی امین گنڈاپور کی آڈیو کی تاریخ کب کی ہے۔دراصل آڈیو کی تاریخ سے معلوم ہوگاکہ کس دن کے لیے تیاریاں کی جارہی تھیں۔ جس پر جج نے استفسار کیا کہ آڈیو ریکارڈنگ منظرعام پر آنے کے بعدکیا کوئی اشتعال پر مبنی واقعہ پیش آیا؟ پراسیکوٹر عدنان نے کہا کہ کسی بھی واقعے میں اشتعال پھیلانےکی تیاری کرنا بھی جرم ہے۔

 جج نےاستفسار کیا کہ بالفرض میں مجسٹریٹ ہوں اور مجھے کسی آڈیو لیک پر مقدمہ درج کرناہوتو کیا کروں؟پراسیکوٹر نے کہا کہوفاقی حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا ہےجس میں میجسٹریٹ مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔ جس پر   جج نےاستفسار کیا کہ علی امین گنڈاپور کے کیس سے اسلحہ کہیں برآمد ہواہے؟  جس پر  پولیس اہلکار نے کہا کہ علی امین گنڈاپورسے یا کیس سے متعلق کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔ پراسیکوٹر نے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے دورانِ تفتیش اپنے بیانات کو کئی بار تبدیل کیاہے۔

پراسیکوٹر نے مزید کہا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے بارڈر پر شکار صرف پولیس والے ہوتےہیں۔تحریکِ انصاف کا مقصد ریاست پر حملہ کرناہوتاہے۔ جج نےاستفسار کیا کہ آڈیو کی ریکارڈنگ کب بھیجی؟ اور کب تک رپورٹ موصول ہوگی؟ پولیس اہلکار نےاس کے جواب میں کہا کہآڈیو ریکارڈنگ کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے، معلوم نہیں کب آئےگی۔

جج سکندرخان نے استفسار کیا کہ  کیا علی امین گنڈاپور نے اپنی آڈیو ریکارڈنگ کا اقرار کیا؟   پراسیکوٹر  نے کہا کہعلی امین گنڈاپور نے جیل سے باہر آکر ایسے ہی اشتعال پھیلاناہے۔ جس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج سکندرخان نے علی امین گنڈاپور کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ جج سکندرخان نے کہا کہ کل تفتیشی افسر پیش ہوں، درخواست ضمانت پر فیصلہ کل سنایا جائیگا۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ  میں علی امین گنڈا پور کی دہشت گردی کے مقدمے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت میں علی امین گنڈاپور کی جانب سے کوئی وکیل عدالت پیش نہ ہوا۔  جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں ڈویثرن بینچ نے سماعت کی، جس کے بعد عدالت نے عدم پیروی پر علی امین گنڈاپور کی درخواست خارج کردی