ایک نیوز: قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں الیکشن کیلیے فنڈز فراہمی کو روکنے کیلئے وفاقی وزرا اور معاشی ٹیم نے سر جوڑ لیے۔
تفصیلات کے مطابق قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کےاجلاس ہوا جس میں وزیر مملکت برائے خزانہ اور معاون خصوصی برائے خزانہ اجلاس میں شریک وزیر تجارت نوید قمر خصوصی طور پر مدعو ہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان بھی شریک اجلاس میں شریک ہوئے۔
وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک حکام شریک مخدوم سید سمیع الحسن نے اجلاس میں وزیر خزانہ کی عدم شرکت کا معاملہ اٹھا دیا۔ مخدوم سید سمیع الحسن نے کہا کہ ایک سال ہوگیا ہے وزیر خزانہ ابھی تک اجلاس میں نہیں آئے،آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا ہمیں علم نہیں ہے،
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی جارہی تھی جس پر کمیٹی رکن چوہدری برجیس طاہر نے اعظم نذیر تارڑ کو روک دیا۔ چوہدری برجیس طاہر نے کہا کہ 13 اپریل کو کمیٹی نے متفقہ فیصلہ کیا تھا پنجاب میں انتخابات نہ کرائے جائیں گے.پنجاب میں جو الیکشن جیتے گا وہ باقی تین صوبوں میں خود ہی جیت جائے گا۔ پنجاب کے انتخابات پورے ملک کیلئے نقصان دہ ہونگے۔سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 میں جو ترامیم کی اس نے بیڑہ غرق کردیا ہے آرٹیکل 84 کو دیکھیں وفاقی کنسولیڈیٹڈ فنڈز حکومت کا پیسہ ہے۔وفاقی کنسولیڈیٹڈ فنڈز کو خرچ کرنے کا اختیار آئین نے متعین کیا ہوا ہے۔
وزیر قانون نے اس موقع پر کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ دو دفعہ اخراجات کرنا بھی ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 81 کے تحت چارجڈ اخراجات کے تحت فنڈز الیکشن کمیشن کو دیئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے،قومی اسمبلی نے قانون سازی کی مخالفت کی ہے۔ سپریم کورٹ نے آج 21 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کی تاریخ دی ہے، سپریم کورٹ نے حکم دیا ہےکہ دیگر اخراجات میں سے یہ فنڈز دیئے جائیں۔ آئین کے مطابق یہ واضح ہے فنڈز کا اجراء قومی اسمبلی کی منظوری سے ہوگا، 21 ارب روپے کا فنڈ وفاقی کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں دیئے جانے کا مطالبہ سامنے آیا، حکومت یہ ڈیمانڈ قومی اسمبلی میں پیش کریگی اور منظوری طلب کی جائیگی۔
وزیر قانون نے کہا کہ21 ارب روپے کے جاری فنڈز کا حساب کون دے گاَ؟ یہ معاملہ کمیٹی کے بجائے ایوان میں جانا چاہیے ہے۔قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر اس پر فیصلہ لیا جانا چاہیے کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننا ہے تو آرٹیکل 84 میں ترمیم کی جائے،اس ملک میں آئین کو 1947 میں بننا تھا 1973 میں بنا۔
وزیر قانون نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سپریم کورٹ کا حکم سر آنکھوں پر ہے لیکن قانون کے مطابق ہو۔ سپریم کورٹ نے بعد میں منظوری لینے کی ہدایت کی ہے، اٹارنی جنرل یہ بتائیں گے کہ پیسے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ 2019 میں پبلک فنانس ایکٹ بنایا گیا کہ فنڈز کیسے لئے جاسکتے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ منصور اعوان چارجڈ اخراجات کی قانون سازی کو قومی اسمبلی نے مسترد کردیا تھا۔،دیگر اخراجات میں کورٹ نے فنڈز دینے کی ہدایت کی ہے۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی نے فیصلہ کیا تھا کہ فنڈز نہیں دیئے جاسکتے، پوسٹ فیکٹو منظوری ہوتی ہے لیکن اب یہ فیصلہ قومی اسمبلی نے کرنا ہے۔ وزارت خزانہ کو کہیں کہ یہ ڈیمانڈ بنائی جائے اور کابینہ کو بھیجی جائے، کابینہ اس ڈیمانڈ کو قومی اسمبلی کی سامنے رکھے۔
وزیر قانون نے کہا کہ میڈیا یہاں بیٹھا ہے ہم اس کو قبول اور مسترد نہیں کررہے بلکہ تصحیح کررہے ہیں۔ وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم قابل عزت ہے لیکن ہمیں آئین کے مطابق چلنا ہے، کابینہ میں قواعد کے مطابق ڈیمانڈ پیش ہو اور پھر پارلیمنٹ میں لائی جائے۔
وزیر تجارت نوید قمر نے اس موقع پر کہا کہ ڈرایا جاتا ہے کہ توہین عدالت لگ جائے گی،پارلیمنٹ کی جو توہین کی جارہی اس کا جواب کون دے گا؟قومی اسمبلی ایک فیصلہ پہلے کرچکی ہے اس پر دوسرا فیصلہ کیوں کیا جارہا ہے؟میں وزیر قانون کی اس بات سے متفق نہیں کہ دوبارہ قومی اسمبلی بھیجا جائے۔ وزیر قانون نے کہا کہ آئین کے مطابق اس کا فیصلہ کرنا ہے۔ حکومت کو سپریم کورٹ فیصلے کے خیال ہے۔ڈیمانڈ پیش کرے اور کابینہ سے منظوری لے،قومی اسمبلی سے اس کی منظوری لی جائے۔ہم نیک نیتی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھتے ہیں۔آج ہی کی تاریخ ہے اور آج کابینہ اجلاس اور قومی اسمبلی اجلاس بھی ہے۔کمیٹی نے وزرات خزانہ کو ڈیمانڈ کابینہ کو بھیجنے کی سفارش کردی ہے جس کے بعد قومی اسمبلی میں معاملہ بھیجا جائے۔
وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کیلئے 21 ارب روپے کے فنڈز کے اجراء سے متعلق آج ہی سمری وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اخراجات کا اختیار نہیں ہے۔ قومی اسمبلی نے منظوری دی تو فنڈز جاری ہو جائیں گے۔ خزانہ ڈویژن بھی کابینہ اور قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر فنڈز استعمال نہیں کر سکتی، اس لئے وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد آج ہی معاملہ قومی اسمبلی میں لے جایا جائے گا۔