ایک نیوز:سپریم کورٹ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیرقانونی قرار دینے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آج سے بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ وصول کرنے کا حکم دیدیا۔سپریم کورٹ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیخلاف کمپنیوں کا معاملہ نیپرا اپیلٹ ٹربیونل کو بھیج دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے سماعت کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل ڈسٹری بیوشن کمپنیز کی سرزنش کردی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ایک ہزار سے زائد اپیلیں ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف دائر ہوئیں،آپ دلائل میں 1090نمبر درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں،آپ کو چاہئے تھا کورٹ سٹاف کو دلائل دے کر پہلے بتا دیتے،ایک ہزار سے زائد درخواستوں سے اس کو نکالنا دوران کیس آسان نہیں،پروفیشنل ازم تو جیسے ختم ہو گیا ہے، روسٹرم پر آکر تقریریں کریں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے،کسی کو اعتراض نہیں تو میرٹ پر دلائل دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت کی معاونت اور فیڈریشن کی نمائندگی اٹارنی جنرل آفس کرے گا۔
بجلی کی ترسیلی کمپنیوں ڈسکوز کے وکیل منور سلام نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ معاملہ یہ تھا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کیا ہے اور چارج کیوں ہوتی ہے،لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے اپنے اختیار سے باہر جا کر فیصلہ دیا۔فیصلے میں کہا بجلی کے 500یونٹ سے زائد استعمال پر اضافی چارجز وصول کئے جائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کے سامنے درخواست میں تو یہ استدعا کی ہی نہیں گئی تو فیصلہ کیسے دیا گیا؟ہائیکورٹ کے فیصلے میں 500یونٹ کی حد کس بنیاد پر مقرر کی گئی؟
وکیل نے کہاکہ جج نے بنیادی آئینی ڈھانچے پر انحصار کرنے کے باوجود اٹارنی جنرل کو بغیر نوٹس فیصلہ دیا،اسی عرصے میں ایک اور جج نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق درخواستیں خارج کی تھیں،فیصلے میں کہا نیپرا کا فورم مکمل نہ ہو تو وہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سمیت کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کیا ہے؟
وکیل ڈسکوز نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور اس کا اطلاق غیرقانونی قرار دیا،فیصلے میں کہا صارف کی گنجائش سے زیادہ ایڈیشنل چارجز بل میں شامل نہیں کئے جا سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح تو آپ کہیں گے میری بجلی کا بل دینے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہائیکورٹ نیپرا کااختیار استعمال کر سکتی ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کو ثابت نہ کیا تو میرٹ پر دلائل نہیں سنیں گے،نجی کمپنیاں بتائیں متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کے بجائے ہائیکورٹ سے رجوع کیوں کیا؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ وقفے کے بعد عدالت کو آگاہ کریں۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل کمپنیز سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مئی 2022 میں جب فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ لگایا گیا تب نیپرا کی تشکیل غیر آئینی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر نیپرا کی تشکیل غیر آئینی تو جج کو اس پر فیصلہ دینا چاہئے تھا،لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے اپنے اختیار سے باہر نکل کر فیصلہ دیا جس کو برقرار رکھنا ممکن نہیں،ہائیکورٹ کے ججز آرٹیکل 199 پڑھنا بھول جاتے ہیں،کیا ہائیکورٹ کا جج یہ کہہ سکتا ہے کہ 500 یونٹ بجلی استعمال پر بل یہ ہو گا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت نیپرا کے تکنیکی معاملات نہیں دیکھ سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائیکورٹ نے وہ فیصلہ دیا جس کی درخواستوں میں استدعا ہی نہیں کی گئی تھی،بہتر ہو گا تکنیکی معاملات نیپرا کے سامنے ہی اٹھائے جائیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیپرا اور ڈسکوز کو ٹربیونل میں معاملہ چیلنج کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔
سپریم کورٹ نے آج سے بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ وصول کرنے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ کمپنیز اور صنعتوں سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد واجب الادا رقم نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل کے فیصلے سے مشروط ہو گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایک ہزار نوے درخواستیں نمٹا دیں۔