اسلام آباد ہائیکورٹ نےسائفر کیس کی جیل میں سماعت کامحفوظ فیصلہ سنادیا

اسلام آباد ہائیکورٹ نےسائفر کیس کی جیل میں سماعت کامحفوظ فیصلہ سنادیا
کیپشن: اسلام آباد ہائیکورٹ نےسائفر کیس کی جیل میں سماعت کامحفوظ فیصلہ سنادیا

ایک نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کی جیل سماعت کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسکیوٹر نے سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں دلائل کیلئے تیار ہوں، سماعت ملتوی کرنی ہے تو ٹرائل پر حکم امتناع جاری کردیں۔

چیف جسٹس نے ایف آئی اے پراسکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ آج کھوسہ صاحب اپنے دلائل کا آغاز کرلیں، آپ نے بھی جو تحریری دلائل دینے ہیں وہ دے دیں۔

 چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کھوسہ صاحب یہ بتائیں کہ پاکستان میں امریکہ کی طرح دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا کوئی قانون موجود ہے؟

وکیل نے کہا کہ اس سائفر کو تو وفاقی کابینہ نے ڈی کلاسیفائیڈ کردیا تھا۔ یہ سائفر امریکہ میں سفیر اسد مجید نے دفتر خارجہ کو بھجوایا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل

وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک بات واضح ہے کہ بطور وزیراعظم میرے سامنے سائفر آیا، چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کو ہائیئسٹ فارم نینشل سیکیورٹی کمیٹی میں لے کر گئے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے سائفر کو بلیٹنٹ انٹرفیئرینس قرار دیا اور سخت ڈیمارش کرنے کا فیصلہ کیا۔

وکیل نے کہا کہ 38 ویں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں فارن سیکریٹری کو طلب کیا گیا، فارن سیکریٹری نے سائفر کو کنفرم کیا۔ وزیراعظم نے بتانا ہے آپ کے ملک کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے، یہ خود وزیر اعظم نے جج کرنا ہے کہ ملک کو کسی ایکٹ سے کوئی خطرہ تو نہیں۔

عدالت نے سوال کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں وہ جو درست سمجھتا ہے تو وہ اس کو ڈسکلوز کر سکتا ہے؟

وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی بالکل وزیراعظم جو درست سمجھتا ہے وہ ڈسکلوز کر سکتا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیے کہ میری سمجھ کے مطابق اس وقت ملک کے بہترین مفاد میں چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر سے متعلق قوم کو اعتماد میں لیا، انہوں نے ناصرف قوم کو بلکہ پارلیمنٹ اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو بھی اعتماد میں لیا، انہوں نے بطور وزیراعظم نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جو آفیشنل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہو۔

وکیل نے کہا کہ یہ کہنا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر لے گیا یہ مضحکہ خیز ہے، ان کو ایک ایسے آرڈر کے تحت گرفتار کیا گیا جس پر تاریخ تک نہیں تھی، سولہ اگست کو ایف آئی اے نے جسمانی ریمانڈ مانگا جسے ٹرائل کورٹ نے مسترد کر دیا، ان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گی، عدالت کل چیئرمین پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد کرنے جا رہی ہے۔

سائفر وزارت خارجہ میں ہے، وکیل لطیف کھوسہ

انہوں نے کہا کہ سائفر کیس میں سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوتا، میں نے کہا سازش سے نکالا پی ڈی ایم کا موقف تھا عدم اعتماد کرکے نکالا، سائفر میرے پاس نہیں ہے وہ موجود بھی وزارت خارجہ میں ہے، انہوں نے ایف آئی آر میں کوڈ لکھا ہے انہوں نے خلاف ورزی کی ہے، کس نے ان کو کہا تھا کوڈ ایف آئی آر میں لکھیں، چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر میں ردوبدل کا الزام بے بنیاد ہے، سائفر کا کوڈ ملزم نے نہیں بلکہ خود استغاثہ نے ایف آئی آر میں ظاہر کیا۔

چیف جسٹس کا وکیل لطیف کھوسہ سے استفسار

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے نا ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے نا سیکشن 5 کا؟

وکیل نے کہا کہ جی بالکل نا ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے نا سیکشن 5 کا اطلاق ہوتا ہے، یہ ممنوعہ جگہ نہیں ہے اگر ملک کے خلاف کوئی سازش ہو تو عوام کو بتانا وزیراعظم کا کام ہے، یہاں انہوں نے بڑی آسانی سے اعلان کر دیا کہ سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق سائفر کیس میں تمام کارروائی میل آف آئی اسی ہے اور سیاسی اختلاف کے باعث کی گئی؟

وکیل نے دلائل دیے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اقتدار سے چمٹے نہیں رہے، وہ ہمیشہ عوام سے رجوع کرتے ہیں، جمہوریت میں قیادت عوام سے رجوع کرتی ہے، پاکستان کو سرزمین بے آئین بنادیا گیا، نگران صوبائی حکومت 90 دن سے تجاوز کر گئی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ 9 مئی کو بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی گئی، پی ٹی آئی کے 10 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا جس وقت چیئرمین پی ٹی آئی زیر حراست تھے، چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان کی نہیں پوری دنیا کے ہیرو تھے، ان پر 200 مقدمات کردیے۔

چیف جسٹس نے وکیل سردار لطیف کو ہدایت دی کہ مائنس ون والی بات چل رہی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو مائنس ون کیا جائے گا، سیاسی گفتگو نہ کریں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر آئندہ سماعت کے لیے جانا ہے تو عدالت کارروائی اسٹے کر دے، پہلے بھی ہمارے لئے دوسرے کیس میں ٹھیک نہیں ہوا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹانے کا فیصلہ سنادیا۔

تحریری فیصلہ

جیل ٹرائل کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلے کے اہم نکات سامنے آگئے، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹا دی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ جیل ٹرائل سیکیورٹی کے مدنظر چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، بظاہر جیل ٹرائل کے معاملے پر کوئی بد نیتی نظر نہیں آئی۔

تحریری فیصلے کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی خود اپنی سکیورٹی کے حوالے متعدد بار خدشات کا اظہار کرچکے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل ٹرائل پر تحفظات ہوں تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔