ایک نیوز: رہنما مسلم لیگ ن اور سابق وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ عام انتخابات 2024 سے قبل فیض آباد دھرنےکیس کی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پبلک ہوجانی چاہیئے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ 4 سال میں وہ کرپشن ہوئی جو75 سال میں نہیں ہوئی، بشریٰ بی بی کے خواتین گینگ نے اربوں روپے کی لوٹ مار کی،کیا پی ٹی آئی کو 2018 کی طرح لیول پلیئنگ فیلڈ چاہیئے، جس طرح ہمارے خلاف کیسز چلے کیا ان کے خلاف بھی چل رہے ہیں؟ کیا چیئرمین پی ٹی آئی نے صرف 190 ملین پاؤنڈ کی کرپشن کی،ہاؤسنگ سوسائٹی جو ڈویلپمنٹ ہوئی اس کے پیچھے ثاقب نثار سے بندیال یا جنرل فیض سے جنرل باجوہ تک پیچھے نظر آئیں گے،البتہ ملک میں کوئی شخص ریاست سے بالاتر نہیں ہونا چاہیئے۔
جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کے آتے ہی آئین کی بالادستی کا کام شروع ہوا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اداروں کے سربراہان کمپرومائز آتے ہیں تو اداروں میں آئین کی بالادستی نہیں ہوتی۔
لیگی رہنما نے کہا کہ انتخابات سے پہلے فیض آباد دھرنے کی کمیشن رپورٹ پبلک ہوجانی چاہیئےتاکہ عوام کو واضح ہو سکے کہ کس طرح کئی سال سے لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔اگر ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پیش کردی جاتی اور کارگل پر کمیشن بن جاتی تو اچھا تھا، یہ سب قومی مفاد میں چیزیں ہیں، فیض آباد دھرنے پر تشکیل دیے گئے کمیشن سے گزارش ہے کہ وہ ٹائم فریم سے آگے نہ جائیں تاکہ صاف و شفاد الیکشن ہو سکیں۔
جاوید لطیف نے کہا کہ مسلم لیگ ن کو جو سیاسی حمایت مل رہی ہے اسے غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے،جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں 2018کے علاوہ تو نوازشریف کی مقبولیت پر علاقائی و صوبائی جماعتیں اپنا سیاسی مفاد انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی آئی ہے۔ہمیں کہا جارہاہے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے،آج بھی پی ٹی آئی چیئرمین وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا ہے ایک وکیل جیل سے نکل رہا ہے کہتا اسٹیبلشمنٹ کےپاؤں پڑنے کو تیار ہے دوسرا وکیل کہتا ہمارا مقابلہ اسٹیبشلمنٹ سے ہے۔
لیگی رہنما کا کہنا ہے کہ کیا لیول پلینگ فیلڈ انہیں 2018ء کی طرح دیا جا رہا ہے،کیا دو ماہ میں ہمیں سزائیں دی تو کیا سے عدالتی پروسیس کہتے ہیں۔پروسیس کے ذریعے ریلیف و انصاف ملنا چاہئیے اگر ہمیں باہر انتخابات سے رکھ دیا جائے تو انہیں لیول پلینگ مل جائے گی۔ہم کہتے رہے بیانیہ کی تکمیل ہونے جا رہی ہے اداروں میں بیٹھے لوگ آئین و قانون کے مطابق کام کریں تو پاکستان ترقی کرسکتا ہے۔ایک ادارے نے 9 مئی کی تحقیقات کی تو نام سامنے آ گئے دھرنے میں جو جو کروانے والے سہولت کار تھے خواہ وزیراعظم آرمی چیف یا چیف جسٹس اسے جواب دہ ہونا ہوگا،ہم کوئی مسلح جدوجہد نہیں کررہے تھے ملک میں کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہئیے جو پاکستان آئین قوانین سے بالا ہو۔
جاوید لطیف نے کہا کہ ایک ادارے کے سربراہ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ عوام کی جدوجہد کا نتیجہ ہے آج اداروں میں بیٹھے لوگ چیف کے بدلنے سے قانون کی بالادستی والا قانون تبدیل ہوا،جو لوگ ہمیں بھاشن دے رہے ہیں اکا دکا سیٹوں کےلئے بلوچستان پھر رہے ہیں تو کہتا ہوں بلوچستان کی علاقائی جماعتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا مقصود ہے،اگر ضمنی انتخابات میں جنرل فیض سے جنرل باجوہ کی سہولت نہ ہوتی تو بیس ضمنی انتخابات کے نتائج مختلف ہوتے۔
جاوید لطیف نے کہا ہے کہ نوازشریف یا چیئرمین پی ٹی آئی کے تمام زیر التوا کیس کے فیصلے منصفانہ انتخابات سے پہلے ہو جانے چاہئیں تاکہ انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنائے اس پر کوئی انگلیاں نہ اٹھاسکے،اگر جمہوریت پر کوئی یقین رکھتا ہے آئین و قانون کی بات کرتا ہے تو اسے جھوٹ کا سہارا لینے کے بجائے ان بڑوں کا جو پھانسی چڑھا یا سزا ہوئی تو میثاق جمہوریت پر عمل کررہے ہیں،ہم یہ بات نہیں کرنا چاہتے پانامہ کیس میں عدالت کون گیا،سلیکشن کمیٹی ملک کے مفاد میں نہیں اگر انتخابات آگے پیچھے کرنے کی کسی کی خواہش ہو تو اس سے ملک کو نقصان ہوگا۔
جاوید لطیف نے مزید کہا ہے کہ انتخابات ہونے کو ہیں کنگ پارٹی کا طعنہ دیا جا رہا ہے،سہولت کاری موجود ہے 10مئی کے بعد جو سہولت کاری کررہے تھے ان کے نام آئے،آج بھی سہولت کاری اسے میسر نہ ہو تو اس کے کرپشن کے کیسز ملتوی ہو رہے ہوں سٹے مل رہے ہیں،نیب ریمانڈ کی استدعا مسترد کر دی جاتی ہے ہمیں تو ریمانڈ پر دیدیا جاتا تھا،2 اداروں کے سربراہان تبدیل ہونے سے ماحول تبدیل ہو گیا ہے۔تیسرا نوازشریف ووٹ سے ملکی قیادت تبدیل ہوگا تب ملکی ترقی بھی ہوگی۔