ایک نیوز نیوز: وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں نیب نے جواب جمع کرادیا۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت ہوئی،کیس کی سماعت جج محمد بشیر نے کی ،اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح اور نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی عدالت کے رو برو پیش ہوئے۔نیب نےاثاثوں کی ڈی اٹیچمنٹ اور بریت سے متعلق درخواستوں پر جواب جمع کرا دیا۔
قاضی مصباح نےکل 42 گواہ پیش کیے،سب گواہان پر جرح مکمل ہو چکی ہے،نیب کے پرانے قانون کے مطابق بھی یہ کیس بنتا ہی نہیں،اسحاق ڈار پر 2017 میں 9a5 کاچارج فریم کیا گیا،الزام تھا کہ اثاثے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز سے بنائے گئے،استغاثہ کاکیس یہ تھا کہ اسحاق ڈار کےاثاثوں میں91 فیصد اضافہ ہوا،استغاثہ نے اپنے اس کیس میں کرپشن اور ڈس آنسٹ مینز کا کوئی ایک بھی الزام نہیں لگایا۔
قاضی مصباح نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پورے ریفرنس میں نیب نے یہ الزام نہیں لگایا کہ اثاثہ جات میں اضافہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز سے ہوا ہے،اعلی عدالتیں مختلف کیسز میں ایسے معاملات کو کرپشن کے زمرے میں شمار نہیں کیا،اسحاق ڈار پر اپنے اختیارات غلط استعمال کرنے کا الزام بے بنیاد ہے،قاضی مصباح کے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے سے جے آئی ٹی کی تحقیقات کا بہت شور تھا،جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں غلط رپورٹ جمع کرائی، تاریخوں کے حساب سے تحقیقات نہیں کی گئیں، جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 2 میں تفتیش کا ذکر موجود ہے، دوران تفتیش اسحق نے بتایا کہ 2002 سے 2008 تک بیرون ملک تھے،الزام لگایا گیا کہ اسحاق ڈار نے اپنی ہی کمںپنیوں کو عطیات دے دیے، ہجویری ٹرسٹ اور ہجویری فاؤنڈیشن کا ریکارڈ نہیں لیا گیا،اسحاق ڈار کی تمام ریٹرنز الیکشن کمیشن انکم ٹیکس اور ویلتھ ریکارڈ میں موجود ہیں،حدیبیہ پیپر ملز کیس 93 سے 98 کی بات ہے،یو اے ای میں قیام کے دوران اسحاق ڈار کی آمدن میں اضافہ ہوا،حدیبیہ پیپر ملز کا اس ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں،جے آئی ٹی نے حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کیں، سپریم کورٹ حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات بند کر چکی ہے،جے آئی ٹی نے کوئی اصل دستاویزات قبضے میں نہیں لیں۔
قاضی مصباح نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار پر ریفرنس دائر کرنے میں قانونی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا،نیب کا کہنا ہے کہ ان کی اپنی تحقیقات نہیں تھیں سپریم کورٹ کے کہنے پر ریفرنس دائر کیا، 2008 سے 2017 تک کے عرصے میں میرے موکل پر کرپشن کا الزام لگایا گیا،تفتیشی افسر کو حکم دیا گیا تھا کہ تحقیقات کرنے کے بعد ریفرنس ہی دائر کرنا ہے،نیب نے تین اثاثوں کا ریکارڈ پیش کیا ہے۔نیب نے ضمنی ریفرنس میں سات بنک اکاؤنٹ پیش کیے،کوئی بھی اکاؤنٹ نہ ہی اسحاق ڈار اور نہ ہی ان کے بے نامی کے تھے،یہ بھی دیکھنا ہے کہ اسحاق ڈار اور دیگر ملزمان ان اکاؤنٹس کی ٹرانزیکشن کے بینیفشری ہیں کہ نہیں؟جے آئی ٹی کے علم میں تھا کہ 2002 سے 2008تک اسحاق ڈار بیرون ملک تھے۔جے آئی ٹی اور نیب نے جس پر انحصار کیا وہ اسحاق ڈار کی ڈکلئیر آمدن ہے ،جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کا ریکارڈ انکم ٹیکس گوشواروں سے حاصل کیا۔
فاضؒل جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کے اثاثوں کی چھان بین کی؟قاضی مصباح نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے کچھ نہیں کیا۔2005 میں تین پلاٹ خریدے جبکہ وہ اس عرصے میں بیرون ملک تھے،2008 میں اسحاق ڈار کے پاس 83 کروڑ کے فنڈز موجود تھے ۔1988میں ان کی اہلیہ نے 2کنال 19 مرلے کا پلاٹ خریدا جبکہ وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے ،اسحاق ڈار نے 2004 میں لینڈ کروزر خریدی اور پھر بیچ دی ،2008 میں ملہوٹ میں زمین خریدی ،نیب اس حوالے سے اپنی انکوائری ختم کر چکا ہے ۔اسحاق ڈار نے 2008 سے 2011تک بینکنگ چینلز کے زریعے رقوم پاکستان بھیجیں۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔