پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ کیس: 'نظرثانی کو اپیل کا درجہ حاصل نہیں'، سپریم کورٹ

Jun 16, 2023 | 12:52 PM

ایک نیوز: پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ نظرثانی تو نظرثانی ہی رہنی ہے۔ اسے اپیل کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔

سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں۔ 

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے۔سجیل سواتی نے کہا کہ میں دس منٹس دلائل دینا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہم مہمان کے طور پر بلاتے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو آپ کا کیس نہیں سن رہے۔ اٹارنی جنرل صاحب پہلے دلائل دے رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ گئے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ جسٹس منیب اختر نے گزشتہ روز آبزرویشن دی کہ آرٹیکل 184/3 کو دیگر کیسز سے الگ کیوں کر دیا ہے؟ ہائیکورٹ کے کئی فیصلوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل اور سپریم کورٹ سے بھی اپیل کا حق ہوتا ہے۔، آرٹیکل 184/3 میں نظر ثانی کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے۔ آئین کے تحت ریاست کے تینوں ستونوں کے امور کو متعین کر دیا گیا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ قانون کے سیکشن 3 میں کہیں نہیں لکھا کہ 5 رکنی لارجر بینچ میں مرکزی کیس کے بینچ کے ججز شامل نہیں ہوں گے۔ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک فریقین کو اپنا کیس پیش کرنے کا پورا موقع ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نظرثانی کا دائرہ کار محدود رکھا ہے۔ آرٹیکل 184/3 میں سپریم کورٹ براہ راست مقدمہ سنتی ہے۔ آرٹیکل 184/3 میں نظرثانی کا دائرہ کار اسی وجہ سے وسیع کیا گیا ہے۔ نظرثانی کا دائرہ وسیع ہونے سے فریقین عدالت کو پوری طرح قائل کر سکیں گے۔ 

اپنے دلائل میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ دائرہ کار محدود ہونے پر کئی متاثرہ افراد نظرثانی دائر ہی نہیں کرتے تھے۔ قانون میں وسیع دائرہ کار کیساتھ لارجر بنچ کی سماعت بھی اسی نظریے سے شامل کی گئی ہے۔ لارجر بنچ کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے فیصلہ کرنے والے ججز اس میں شامل نہیں ہوں گے۔ تین رکنی بنچ فیصلہ کرے تو نظرثانی میں ان کے ساتھ مزید دو ججز کیس سنیں گے۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دونوں نکات نوٹ کر لیے اب آگے بڑھیں۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ قانون آج کے تقاضوں کے مطابق بنایا جاتا ہے۔

چیف جسٹس بولنے لگے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کو دلائل جاری رکھنے کا کہہ دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آرڈر 26 تک  خود کو محدود نہیں کرتی۔ آرٹیکل 188 نظر ثانی کے دائرہ کار کو محدود نہیں کرتا۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں بھارتی سپریم کورٹ کا 2002 کے کیوریٹیو ریویو کا حوالہ دیا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے بھارتی سپریم کورٹ نے دوسری نظر ثانی کی اجازت دی۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جی لیکن بلکل محدود اختیار کے تحت دی گئی۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 188 سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کرتا۔ آرٹیکل 188 کے تحت سپریم کورٹ اپنے اختیارات کو وسیع کر سکتی ہے۔ 

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ بھارتی سپریم کورٹ کے جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں بھی نظرثانی اور اپیل کا فرق برقرار رکھا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن ٹریبونلز اور مسابقتی ٹریبونلز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں براہ راست سپریم کورٹ آتی ہیں۔ سنگین غداری کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی سپریم کورٹ آ سکتی ہے۔ آرٹیکل 185 کے تحت ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ اپنے اختیارات کو توسیع دے سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل آپ کی اپنی کہی باتوں سے متصادم نظر آتے ہیں۔ نظرثانی تو نظر ثانی ہی رہتی ہے اسے اپیل کا درجہ تو پھر بھی نہیں حاصل۔ ان تمام قوانین میں فیصلہ کے خلاف اپیل کا ذکر ہے۔ یہاں اس قانون میں آپ نظر ثانی کو اپیل بنانے کی بات کررہے ہیں۔ اپیل اور نظرثانی میں زیر غور معاملہ الگ الگ ہوتا ہے۔ فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق دینا الگ چیز ہے نظر ثانی کا دائرہ اختیار الگ ہے۔ سمجھنا چاہتا ہوں آپ کا پوائنٹ کیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ایک مکمل انصاف کا ٹیسٹ ہے اور بھارتی قانون میں بھی یہی ہے۔ اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ ہم 184(3) کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے، اگر اس کو احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔ سوال یہ ہے نظر ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگلی سماعت میں دلائل مکمل کرنے کے لیے 45 منٹ کے قریب وقت لوں گا۔ آئندہ سماعت پر نظرثانی کے اسکوپ پر دلائل دوں گا۔ آپ نے دوسانی ٹرانسپورٹ کیس کا فیصلہ پیش کیا جو مکمل انصاف کی بات کرتا ہے۔ جو بنیادی سوال ہے اس پر بھی ہم آگے نہیں بڑھ رہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اصل سوال کی طرف ابھی تک نہیں آئے۔ نظرثانی کے اختیار کی سماعت کی کہاں تک توسیع کی جاسکتی ہے؟ نظرثانی کا اختیار سماعت بڑھانے کی بات تو کر رہے ہیں لیکن گراؤنڈز تو بتائیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کا اصل مقدمہ تو پھر یہ ہے کہ دونوں قوانین میں مماثلت ہے۔ ایک قانون میں آپ کہہ رہے ہیں اپیل کا حق دیا جائے۔ دوسرے قانون میں چاہتے ہیں نظرثانی اپیل کی طرز پر ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ تو تضاد ہے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس وقت ایک قانون کو عدالت نے معطل کررکھا ہے۔ اس وقت نافذ العمل قانون صرف ایک ہی ہے۔

سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون کیخلاف کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔ اٹارنی جنرل پیر کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

مزیدخبریں