انہوں نے کہا کہ تیل کی قیمتیں مزید بڑھادی گئی ہیں، کیا ہمیں خاموش بیٹھنا چاہیے یا آواز اٹھانی چاہیے، ہمارے خلاف جو بھی سازش ہوئی تحریک عدم اعتماد آئی اس کا جواز مہنگائی کو بنایا گیا، ہمارے لوگ لوٹے بنے اور ہمارے اتحادی بھی چھوڑ گئے تھے،سب نے کہا بہت مہنگائی ہوگئی ہے ہم حلقوں میں نہیں جا پارہے۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی، فضل الرحمان سب ایک ہی بات کررہے تھے کہ بہت مہنگائی ہوگئی، ملک تباہ ہوگیا، میڈیا بھی ان کی پشت پر کھڑا تھا، آج قوم کے سامنے حقائق رکھنا چاہتا ہوں
سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج کہتے ہیں بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں تو ملک کو ڈی ریل کیوں کیا، آج کہتے ہیں عالمی سطح پر قیمتیں بڑھ گئی ہیں،عالمی بحران ہے، ہم بھی تو یہ فیس کررہے تھے، بار بار بتا رہا تھا کہ عالمی مہنگائی سے اپنی عوام کو بچارہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر جب بھی حکومتیں جاتی ہیں کرپشن پر جاتی ہیں، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی دو دو بار حکومتیں کرپشن پر گئی، میں چیلنج کرتا ہوں کوئی بتادے کہ عمران خان نے کرپشن کی ہے۔ یہ ہمیں مہنگائی اور نااہل کے طعنے دیتے رہتے تھے، جب ہم گئے تو پٹرول 150 روپے فی لٹر تھا، ہمارے ساڑھے 3 سال میں پٹرول کی قیمت 50 روپے بڑھی، ہمارے دور میں بھی عالمی مہنگائی تھی، ہمیں بھی آئی ایم ایف نے کہا سبسڈی ختم کردیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام کو بچانے کیلئے سبسڈی دی تھی، جب تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے، ہمیں اندازہ تھا کہ غریب عوام مزید مہنگائی برداشت نہیں کرسکیں گے، آئی ایم ایف نے ہمیں کہا تیل کی قیمتیں بڑھائیں ہم نے 10 روپے کم کی اورمہنگائی سے لوگوں کو تحفظ دیا۔
پی ٹی آئی چیئر مین نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اب تک 85 روپے پٹرول کی قیمت بڑھادی ہے، پٹرول کی قیمت آج 235 روپے فی لٹر ہے، ڈیزل ہم نے اپنے دور میں جان بوجھ کر کم رکھا تھا، ڈیزل ہمارے دور میں 145 روپے فی لٹر تھا، ڈیزل مہنگا ہوتا ہے تو ساری ٹرانسپورٹ مہنگی ہوجاتی ہے۔ کسان کو ڈیزل کی قیمت بڑھنے سے بڑے مسائل ہوتے ہیں، کسانوں کو پہلے ہی مشکلات ہیں، بارشیں نہیں ہیں ڈیزل کی وجہ سے کسان مزید پریشان ہونگے، موجودہ حکومت نے ڈیزل کی قیمت 115 روپے بڑھائی، ڈیزل کی آج قیمت 260 روپے فی لٹرہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت 16 روپے فی یونٹ چھوڑ کر گئے تھے، آج بجلی کی قیمت 29.5 روپے فی یونٹ ہوگئی ہے، موجودہ حکومت نے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتیں مزید بڑھائی جائیں گی۔
عمران خان نے کہا کہ 50 سال میں ملک میں کسی نے ڈیم نہیں بنایا تھا، ہماری حکومت میں ڈیم بننا شروع ہوئے، بلین ٹری سونامی کا اعتراف برطانوی وزیراعظم نے خود کیا۔ ہمارے خلاف ہونے والی سازش پر اتحادی ہمیں چھوڑ گئے تھے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت 20 ارب ڈالر کا تاریخی خسارہ چھوڑ کر گئی تھی، ہماری حکومت میں 178 اورآج ڈالر 208 روپے تک پہنچ گیا ہے، ہمیں نااہل کہتے تھے اکنامک سروے کے مطابق6فیصد گروتھ تھی۔ ہماری حکومت میں ملک میں خوشحالی آرہی تھی، ہماری حکومت نے کورونا کے دوران 55 لاکھ نوکریاں دیں، جب ملک ترقی کررہا تھا انہوں نے مہنگائی کا بہانہ بنایا، ان سب کا ایک ہی مقصد اربوں روپے کی چوری کے لیے این آراوٹولینا، شہبازشریف کا اوپن اینڈ شٹ کیس تھا بچ نہیں سکتا تھا، شہبازشریف اب خود ایف آئی اے کے اوپربیٹھ گیا ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی ملک کے لوگوں کے مفادات کے لیے ہوتی ہے، بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی ہے وہ کسی سے ہدایات نہیں لیتا، اگر آج قوم نے قدم نہیں اٹھایا تو پاکستان کا کوئی وزیر اعظم آزاد خارجہ پالیسی نہیں چلا سکے گا۔ پاکستان کے بانیان وکیل تھے اور آزادی پاکستان کی تحریک میں وکلا کا بڑا کردار تھا، آج جو پاکستان کی حقیقی آزادی کی تحریک ہے اس میں آپ کا سب سے بڑا کردار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے کہتے ہیں کہ مجھے تحریک عدم اعتماد کو قبول کر لینا چاہیے تھا، میں آپ کے سامنے حقائق پیش کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا۔
تحریک عدم اعتماد پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے دہرایا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی ایشیا کی پاکستان کے سفیر سے واشنگٹن میں ملاقات ہوئی، انہوں نے پاکستان کے سفیر کو کہا کہ عمران خان روس کیوں گئے تھے، یہ عمران خان کا اپنا اقدام تھا اور امریکا اس پر بہت ناراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کو نہیں ہٹایا تو پاکستان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت تک عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش نہیں کی گئی تھی، 7 مارچ کو یہ ملاقات ہوئی، 8 مارچ کو اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اور ایک دم ہمارے اتحادیوں کو خیال آیا ہے کہ یہ حکومت بہت بُری ہے۔ امریکی سفارت خانہ ہماری جماعت میں موجود 15، 20 لوٹوں سے بار بار ملاقات کر رہا تھا، جس کے بعد امریکی سفارت خانہ اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کرنے لگا، ہمارے پاس ساری رپورٹ موجود ہے۔
عمران خان نے کہا کہ امریکی سفارتخانے کا کام خارجہ پالیسی پر تبادلہ خیال کرنا ہے، ان کا کام ہمارے بیک بینچرز سے ملنا نہیں ہے، پھر انہوں نے خیبر پختونخوا میں ہمارے وزیر عاطف خان سے ملاقات کی اور کہا کہ خیبرپختونخوا میں بھی تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد ہمارے اتحادی الگ ہوئے اور سندھ ہاؤس میں ایک منڈی لگی جہاں 20، 20 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی، اس کے بعد حکومت گر گئی۔
سابق وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے آغاز میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جب آئے تو پاکستان دیوالیہ ہونے والا تھا، ہمارے دوست ملک مدد نہ کرتے تو ہم ڈیفالٹ کرجاتے۔ بہت مشکل سے پہلا سال گزرا جس کے بعد دوسرے سال میں کورونا وائرس آگیا، اس وقت ساری دنیا نے دباؤ ڈالا کہ لاک ڈاؤن کرو، ہم نے دنیا بھر کا دباؤ برداشت کیا اور مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا، دو سال بعد دنیا نے مثال دی کہ جس طرح پاکستان کورونا وائرس سے نمٹا ہے یہ دنیا کے لیے مثال ہے۔ پہلے سال میں ہماری معاشی کارکردگی 5.6 فیصد جبکہ دوسرے سال 6 فیصد تھی یعنی تین سالوں میں ہماری معاشی کارکردگی سب سے بہترین تھی۔ ہمارے دور میں زراعت میں مسلسل دو سال اضافی تعداد میں فصل پیدا ہوئی، جبکہ صنعت اور ٹیکسٹائل نے بھی زبردست ترقی کی، جب ملک ایک صحیح سمت میں گامزن تھا تو کیا وجہ ہوئی کہ انہیں لگا کہ حکومت کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ تھی اور وہ وجہ سازش تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ اگر آج پاکستانی قوم نے اس کے خلاف قدم نہیں اٹھایا تو پاکستان کا کوئی وزیر اعظم آزاد خارجہ پالیسی نہیں چلا سکے گا۔ مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امریکا سے دھمکی ملی تھی کہ اگر آپ جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو ہم پاکستان کو بم سے اڑا دیں گے اور ہم نے امریکا کی ایک دھمکی کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے، اس دوران پاکستان میں 400 ڈرون حملے ہوئے جس میں سیکڑوں شہری جاں بحق ہوئے، لیکن کسی نے ان کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ یہ ہے غلامی اور اس غلامی کے خلاف میں کھڑا تھا، میرے لیے بھی یہ بہت آسان تھا کہ میں کہتا کہ میں روس نہیں جاؤں گا۔ میرا روس جانے کا مقصد کم قیمت پر گندم اور تیل خریدنا تھا، یہ میری ذات کے لیے نہیں بلکہ میرے لوگوں کے لیے فائدہ مند تھا۔ میں امریکیوں کو بہت اچھے سے جانتا ہوں، جب تک آپ امریکا کے سامنے جھکتے جائیں گے وہ آپ کو ڈو مور کہتے جائیں گے، آپ کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا پڑتا ہے، اگر آپ اپنے ملک کے مفادات کے لیے کھڑے ہوں گے تو وہ آپ کی عزت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کونسا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ سندھ ہاؤس میں ہارس ٹریڈنگ کی جائے، قومی سلامتی کمیٹی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ مداخلت ہوئی ہے، اگر مداخلت ہوئی ہے تو کیا اس کی تفتیش نہیں ہونی چاہیے تھی۔ جو بھی پاکستان کا وزیر اعظم آئے گا جب اس کو دھمکی ملے گی وہ بھی وہی کرے جو جنرل مشرف نے کیا تھا، ایک ہی ٹیلی فون کال پر کسی اور کی خارجہ پالیسی کے لیے اپنے ملک کے مفادات قربان کردے گا۔ خارجہ پالیسی ملک کے لوگوں کے مفادات کے لیے ہوتی ہے، بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی ہے وہ کسی سے ہدایات نہیں لیتے، انہوں نے کھل کر کہا کہ یوکرین ۔ روس جنگ کا معاملہ ہمارا نہیں ہے، ہم نے اپنے لوگوں اور اپنی ملک کی غربت کو دیکھنا ہے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں نے ’نیوٹرلز‘ کو اس سازش کے بارے میں آگاہ کیا اور کہا کہ اسے روکیں رونہ ملک کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، میری ہدایت پر شوکت ترین نے بھی انہیں وضاحت دی کہ اگر یہ سازش کامیاب ہوگئی تو اس کا براہِ راست معیشت پر اثر پڑے گا۔ اگر کوئی قابل حکومت آتی تو ان کے پاس کوئی روڈ میپ ہوتا اور آتے ہی کہتے کہ ہم نے یہ اقدامات کرنے ہیں تو مارکیٹ کا اعتماد جاتا نہ ہی مارکیٹ میں روپے کی قدر گرتی، انہوں نے آتے ہی احمقانہ بیانات دینا شروع کردیے۔ قانون کی بالادستی کی سب سے بڑی ذمہ داری پاکستان کی عدلیہ اور وکلا کمیٹی پر ہے، ہمارے ملک میں امیر کو قانون کے نیچے لانا ایک جہاد ہے، ان کے خلاف ایف آئی اے کے جو کیسز تھے وہ ہماری حکومت کے نہیں اس سے پہلے کے تھے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہ سب کے سامنے ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں 4 افراد انتقال کرچکے ہیں، آپ کے سامنے ہے کہ ملک کی قانونی بالادستی کو دفن کیا جارہا ہے۔
نیب قانون میں ترمیم کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اب نیا قانون آگیا ہے جس کے تحت بلے دودھ کی رکھوالی کریں گے، نیب پر شہباز شریف براجمان ہوگئے ہیں، نیب ختم ہونے کا مقصد ہے کہ تمام کیسز ختم ہوگئے ہیں۔ پارلیمنٹ کا یہ حال ہے کہ راجا ریاض اپوزیشن رہنما ہیں جو کہتے ہیں کہ میں (ن) لیگ کے ٹکٹ پر اگلا الیکشن لڑوں گا، اس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ ختم ہوگئی ہے۔
الیکشن کمیشن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ قانون کہتا ہے کہ جب اسمبلی کا رکن نااہل قرار دے دیا جائے تو اس کی جگہ دوسرے رکن کو لایا جائے، لیکن الیکشن کمیشن نے انہیں الیکشن لڑنے کا موقع دے دیا ہے، ضمنی انتخابات میں دھاندلی کا ایک بڑا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ دھاندلی کا مقصد ہمارا الیکشن کا نظام اب بدنام ہونے والا ہے، وہ تمام ادارے جنہوں نے جمہوریت کی حفاظت کرنی ہے وہ سب خطرے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے، کوئی ایسا ملک امیر ملک نہیں ہے جہاں قانون نہ ہو، کوئی ایسا غریب ملک نہیں ہے جہاں مکمل طور پر قانون کی بالادستی ہو۔ جب پرویز مشرف کی حکومت میں ہم عدلیہ کی آزادی کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے تو میں واحد لیڈر تھا جسے جیل میں ڈالا گیا، لیکن اس کریک ڈاؤن میں بھی ایسا نہیں ہوا جو اب ہوا، ڈی چوک پر انہوں نے خواتین اور بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا، یہ کس قانون کے تحت کیا گیا۔
سابق وزیر اعظم نے وکلا برادری کو ہدایت دی کی آپ سب نے اپنے ملک کی حقیقی آزادی کے لیے نکلنا ہے، اگر اس وقت یہ حکومت چلتی رہی تو مجھے خوف ہے کہ یہ پاکستان کو کمزور کر کے جائیں گے، ملک کا حال سری لنکا جیسا ہوجائے گا۔ اس ملک کو اس دلدل سے صرف ایک چیز نکال سکتی ہے، وہ واحد حل صاف و شفاف انتخابات ہیں۔