ایک نیوز: زیادہ تعلیم یافتہ شخص آئندہ کم تعلیم یافتہ شخص کے عہدے پر فائز ہونے کا زیادہ حقدار نہیں ہوگا، سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ سنا دیا۔
رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نےلیسکوکمپنی میں لائن سپریٹنڈنٹ بھرتی ہونےوالےانجینیرکےمقدمےکا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ زیادہ تعلیم رکھنے والا کم تعلیم والے عہدے کا زیادہ حق دار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے خودمختار سرکاری اداروں میں بھرتی کے معیار پر دائر مقدمے کا فیصلہ تحریر کیا۔ جس میں کہا گیا کہ لائن سپریٹنڈنٹ کے عہدے پر انجینئر کی تعیناتی سے ادارے کی تنظیمی درجہ بندی متاثر ہوئی ہے جس سے کام میں خلل پڑے گا۔ ادارے نےکس شخص کو بھرتی کرنا ہے اور کس کو نہیں کرنا اس کا فیصلہ عدالت نہیں کرسکتی ہے۔ اداروں کو اس کا فیصلہ ادارے نے کر نا ہے۔
سپریم کورٹ کا مزید کہنا تھا کہ ادارے کا زیادہ اہلیت رکھنے والے کو تعینات نہ کرنا امتیازی یا من مانا فیصلہ نہیں ہے۔ کمپنی پالیسی پر پورا نہ اترنے والا چاہے کتنا ہی زیادہ تعلیم یافتہ کیوں نا ہو بھرتی نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ عدالت کا کام نہیں کہ وہ کسی امیدوار کی اہلیت کی جانچ پڑتال کرے۔زیادہ اہل شخص کو کم اہلیت والے عہدے پر تعینات کرنے کے سماجی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔
ایسا کرنے سے کم تعلیم یافتہ لوگ وزگارکے مواقع سے محروم جبکہ اعلیٰ اہلیت کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
واضح رہے کہ لیسکو نے 2015ء میں لائن سپریٹنڈنٹ بھرتی ہونے والے انجینیر وقاص اسلم کو بھرتی کرنے سے انکار کیا تھا۔جس پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے پر عدالت نے انجینیر کو لائن سپریٹنڈنٹ بھرتی کرنے کا حکم دیا تھا۔
لیسکو نے انجینیر کو لائن سپریٹنڈنٹ بھرتی کرنے کا عدالتی حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ لیسکو کا کہناتھا کہ لائن سپریٹنڈنٹ وقاص اسلم 2015ء سے کام کررہا ہے اس کی سروس کی وجہ سے اب مخالفت نہیں کرتے ہیں۔ اس مرتبہ رعایت دے کر وقاص اسلم کو بھرتی کردیتے ہیں لیکن آئندہ کےلیے ایسی رعایت نہیں دی جائے۔جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ آئندہ زیادہ اہلیت رکھنے والا کم اہلیت والے عہدے کا حق دار نہیں ہوگا۔