معاشی پالیسیوں پر حکومتی اور اتحادی ارکان پھٹ پڑے

معاشی پالیسیوں پر حکومتی اور اتحادی ارکان پھٹ پڑے
کیپشن: Government and coalition members split over economic policies

ایک نیوز نیوز:قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا۔

تفصیلات کے مطابق  قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کی صدارت قیصراحمد شیخ نے کی ۔وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کمیٹی اجلاس میں چیئرمین اور ارکان کے ریمارکس پر برہمی کااظہار کیا۔حکومت کی معاشی پالیسیوں پر حکومتی اور اتحادی ارکان پھٹ پڑے۔کمیٹی  نےاسٹیٹ بینک کو دی گئی سفارشات پر عدم عملدرآمد پر تشویش کا اظہار کیا۔کمیٹی نے ایف بی آر کی جانب سے کمیٹی سفارشات پر عملدرآمد نہ کرنے پر بھی تشویش کا اظہارکیا۔حکومتی رکن ڈاکٹر نفیسہ شاہ کاکہنا تھا کہ موجودہ معاشی حالات میں یہ کمیٹی ان حالات میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ڈاکٹرنفیسہ شاہ کاکہنا تھا کہ اس وقت غیر رسمی معاشی ایمرجنسی لگی ہوئی ہے۔کاروباری افراد، پیداواری شعبے کے لوگ اس وقت تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ہمارے پاس ڈالر کی کمی ہے اور خزانہ خالی ہے میں ڈیفالٹ کا لفظ استعمال نہیں کروں گی۔پورٹ پر سامان پڑا ہوا ہے اور ایل سیز نہیں کھل رہی ہیں۔

چیئرمین کمیٹی قیصراحمد شیخ کاکہنا تھا کہ میں تین دن سے یہاں ہوں اور اسحاق ڈار سے ملنا چاہتا تھا۔کاروباری لوگوں کے معاملات پر ان کو بریفنگ دینا چاہتا تھا ۔اسحاق ڈار مصروف ہیں وہ محنت کررہے ہیں لیکن یہاں آکر ہمیں معلومات دیں۔دو ماہ پہلے سفارشات دی تھیں ان کا جواب نہیں آیا۔

وزیرمملکت عائشہ غوث پاشا کاکہنا تھا کہ میں یہاں وزیر مملکت خزانہ کی حیثیت سے یہاں موجود ہوتی ہوں۔میں ہر سوال کا جواب دیتی ہوں تین سال میں ممبر کمیٹی رہی ہوں اس وقت تو وزیر آتے ہی نہیں تھے۔میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ہر سوال کا جواب دوں۔ایم این اے علی پرویز ملک کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم نے آئی ایم ایف چیف کو خط لکھا ہے اس حوالے سے کمیٹی کو بتائیں۔آخر کیا ایسے معاملات ہیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام تاخیر کا شکار ہے۔

 عائشہ غوث پاشا کاکہنا تھا کہ ہمیں اس وقت ڈیفالٹ کا کوئی اندیشہ نہیں بیرونی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں۔مالی ذخائر میں کمی ہے لیکن معاشی طور پر ڈیفالٹ کی طرف پاکستان نہیں جائے گا۔ انجینئر صابر قائم خانی کاکہنا تھا کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ایک ڈینٹسٹ نے 13 لاکھ کی ڈینٹل چیئر منگوائی ہے اس کی ایل سی نہیں کھل رہی۔اس وقت حالات مشکل ضرور ہیں لیکن برے بلکل نہیں ہیں۔

علی پرویز ملک کاکہنا تھا کہ ہم ڈیفالٹ اس کو  کہتے ہیں کہ بیرونی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ملک میں پانچ ہزار ڈالر کی ایل سیز نہیں کھل رہی ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمدکاکہنا تھا کہ چیلنجز موجود ہے لیکن اس صورتحال کو جس طرح پورٹریٹ کیا جاتا ہے وہ درست نہیں، رواں مالی سال ہم نے 33 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی تھیں۔جس میں سے 23 ارب ڈالر قرض اور 10 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔رواں مالی سال 6 ارب ڈالر کا قرض واپس کیا گیا ہے اور 4 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کیا گیا ہے۔8.3 ارب ڈالر کے مختلف ممالک کے کمرشل قرضوں کو رول اوور کرنے کے حوالے سے بات چیت کی جارہی ہے۔1.1 ارب ڈالر کے کمرشل قرضوں کی واپسی کرنی ہے۔اب ہمیں 13 ارب ڈالر کے بجائے 4.5 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں۔4 ارب ڈالر کے قرضے رواں مالی سال ہمیں ملے ہیں اور مزید 4 ارب ڈالر قرض ملنے کا امکان ہے۔رواں مالی سال 18 سے 19 ارب ڈالر کے قرضے ملنے کا امکان ہے۔ایل سیز کھولنے سے پہلے اسٹیٹ بینک سے اجازت صرف 15 فیصد درآمد کی ہے۔