ایک نیوز نیوز: آن لائن فراڈیوں سے خبردار ، سائبر ٹھگ فنگر پرنٹ کی کلوننگ کر کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرنے لگے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کی ریاست جھاڑکھنڈ کے دھنباد ضلع میں اس طرح کے ڈیڑھ سو کیسز سامنے آئے ہیں۔ سائیبرپولیس کے پاس درج شکایات کے مطابق دھنباد ضلع کے مختلف بینکوں کے کل 147 کھاتوں سے غیر قانونی طور پر رقم نکالی گئی ہے۔
کن افراد کی شناخت چوری کی گئی؟
رپورٹ کے مطابق جن لوگوں کے کھاتوں سے رقم نکالی گئی ہے، ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے بینکنگ خدمات کے لیے بینکوں کی شاخوں کے بجائے ان کے ’کسٹمر کیئر سینٹرز‘ یا ’فرنچائزی سینٹرز‘ کی خدمات لی تھیں اور وہاں کی مشینوں پر اپنے فنگر پرنٹس دیئے تھے۔ خدشہ ہے کہ غیر قانونی رقم نکلوانے کے ان معاملات میں سائبر مجرموں کے ساتھ کسٹمر سروس سینٹرز بھی ملوث ہیں۔
کیا ذاتی شناخت ظاہر کی گئی تھی؟
سائبر پولیس اور بینکوں سے شکایت کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں نہ تو کسی کی طرف سے کال موصول ہوئی، نہ ہی انہوں نے ’اے ٹی ایم‘ کا پن اور ’او ٹی پی‘ کسی کے ساتھ شیئر کیا اور نہ ہی کبھی کسی لنک پر کلک کیا، پھر بھی ان کے اکاؤنٹ سے ہزاروں روپے نکال لئے گئے۔
جن کے اکاؤنٹس ہیک کیے گئے ہیں ان میں تاجر، ڈاکٹر، خواتین بھی شامل ہیں۔
فنگر پرنٹس کی چوری کیسے ہوئی؟
سائبر پولیس کے مطابق یہ سائبر کرائم کے بجائے شناخت کی چوری کا معاملہ ہے۔ فنگر پرنٹس کا استعمال عام طور پر لوگ نئی سم حاصل کرنے، آدھار کو اپ ڈیٹ کرنے، بائیو میٹرک حاضری اور کسٹمر کیئر سینٹرز کے ذریعے رقم نکالنے کے لیے کرتے ہیں۔ مجرم پہلے ہی مشین میں ایک خاص قسم کا کیمیکل لگاتے ہیں جس میں لوگ اپنی انگلیوں کے نشانات دیتے ہیں۔ لوگوں کے جانے کے بعد، وہ کیمیکل پر انگلیوں کے نشانات کو کلون کرتے ہیں۔
کلوننگ کے فراڈ سے کیسے بچا جائے؟
سائبر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے فراڈ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی مشین پر فنگر پرنٹ دینے کے بعد اس جگہ کو روئی یا کپڑے سے صاف کیا جائے تاکہ آپ کے جانے کے بعد اسے کلون نہ کیا جا سکے۔