ایک نیوز : نواب محمد احمد خان کے قتل کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پانچ دیگر افراد بھی شریک جرم گردانے گئے۔ ایک اُس وقت کے بدنام زمانہ وفاقی ادارے فیڈرل سیکیورٹی فورس یا ایف ایس ایف نامی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے۔ دوسرے وعدہ معاف گواہ بنے غلام حسین جو سپاہی تھے۔
فیڈرل سکیورٹی فورس کے سربراہ سمیت ان پانچ افراد کو اس شرط پر معافی دی گئی کہ اگر وعدہ معاف بن جائیں تو انہیں سزا نہیں ہوگی مگر انہیں اپنا جرم عدالت میں قبول کرنا ہوگا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل حفیظ لاکھو نے الزام لگایا کہ باقی تین شریک مجرم جو سپاہی تھے، جماعت اسلامی کے لوگ تھے۔ جس دن انہیں سزا سنائی گئی تو وہ عدالت ہی میں کھڑے ہوگئے کہ صاحب ہم سے تو وعدہ کیا گیا تھا کہ سزا نہیں ہوگی۔
تاہم معافی صرف نمبر ایک وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کو ملی باقی چاروں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود بعدازاں رہائی کے بعد اہل خانہ کے ہمراہ امریکا منتقل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے سیون الیون اسٹور کھول لیا اور گمنامی کی حالت میں انتقال کر گئے۔
مسعود محمود کے بچ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ معروف بزنس مین اور ریٹائراسمگلر سیٹھ عابد کے حقیقی برادر نسبتی ( سالے) تھے۔
اٹھارہ مارچ سنہ انیس سو اٹھہتّر کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو مجرم قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا سنا دی۔ جس کے بعد ذوالفقار بھٹو کےوکلاء نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ میں ابتداء میں نو وکلاء تھے۔ لیکن جسٹس قیصر ریٹائر ہوگئے، جسٹس وحیدالدین بیمار ہوگئے اور یوں چیف جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
سات میں سے چار ججز نے ذوالفقار علی بٹھو کی سزا برقرار رکھی مگر تین ججز، جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ اور درّاب پٹیل اُن تین ججز میں شامل تھے جن کا مؤقف تھا کہ جرم ثابت نہیں ہوتا۔
دو وعدہ معاف گواہوں کے بیانات ثبوت تھے۔ ایک مسعود محمود، ایک غلام حسین۔ غلام حسین کی گواہی بھٹو کے خلاف نہیں تھی بلکہ میاں عباس کے خلاف تھی۔
سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔
اس فیصلے کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے اہل خانہ نے پھر گیارہ فروری کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی۔
سماعت چودہ فروری کو شروع ہوئی اور چوبیس مارچ سنہ انیس سو اناسی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ پھر برقرار رکھا درخواست خارج کردی اور چار اپریل سنہ انیس سو اناسی کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
نواز شریف اور شہباز شریف کیخلاف وعدہ معاف گواہ:
اسی طرح نیب نے سابق وزیراعظم شہبازشریف کو ان کے پنجاب کی وزارت اعلی کےدور میں بننے والی آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں مبینہ کرپشن کے الزمات کے تحت گرفتارکیا تھا۔ مبینہ طور پر ان کی گرفتاری پنجاب کے سابق چیف سیکریٹری اورسابق وزیراعظم نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے بیان پر عمل میں لائی گئی۔ لیکن یہ غلط ثابت ہوا اور فواد حسن فواد تقریبا ایک سال جیل میں رہنے کےبعد بھی نہیں ٹوٹے۔
اسی طرح احد چیمہ جو ایڈمنسٹریٹو سروس کے گریڈ 21 کے افسر تھے اور انہیں ڈی فیکٹو وزیراعلی بھی کہا جاتا تھا۔ ان سے تین سال قید کے بعد بھی شہباز شریف کے خلاف بیان حاصل نہیں کیا جاسکا۔ احد چیمہ وہ پہلے افسر ہیں، جنہوں نے دوران سروس تین سال جیل میں گزارے۔
احد چیمہ کو ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے ساتھ ساتھ میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین، لینڈ ریکارڈ کمپوٹرائزیشن، نندی پور پاور پراجیکٹ، سولر انرجی کے منصوبے اور آشیانہ ہاؤسنگ سکیموں کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی۔
نوازشریف کیخلاف طیارہ اغواء کیس:
99میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کے طیارہ فضا میں اغوا کرنے کا الزام وزیراعظم نواز شریف پر لگایا گیا تھا۔ اس گواہ میں چونکہ شہادت ایسی موجود نہیں تھی جو نواز شریف کو اس طیارہ اغوا کے مقدمے میں ملوث کر سکتی چنانچہ یہاں بھی وعدہ معاف گواہ پید اکیا گیا اور یہ تھا امین اللہ چوہدری جو اس وقت ڈی جی سول ایویشن اتھارٹی تھا۔
اس نے اس شرط پر کہ اس اقبال بیان دینے اور نواز شریف کو ملوث کرنے پر بری کردیا جائے، اپنا اقبالی بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ امین اللہ کے بیان پر کراچی دہشت گردی عدالت نے دو دفعہ عمر قید کی سزادی تھی جسے سندھ ہائی کورٹ کے فل بنچ نے بحال رکھا تھا یہ سزا نوسال بعد سپریم کورٹ بنچ نے ختم کی تھی جسٹس ناصرالملک نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ وعدہ معاف گواہ کے بیان پرانحصارکرکے کسی ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی۔
وعدہ معاف گواہ کسے کہتے ہیں؟
برطانوی قانون دان فرنے چارلس (Fearne Charles-1742-1794)نےاٹھارہویں صدی عیسوی میں’’ کراؤن وِٹنیس‘‘کی قانونی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔ اسے برصغیر میں وعدہ معاف گواہ کے نام سے پکارا گیا۔
لیکن ایڈووکیٹ فرنے چارلس نے یہ قدم اس لئے اٹھایا کیوں کہ برطانوی عدالتوں میں استغاثہ کو شدید مشکلات پیش آتی تھیں۔ شہادتوں اور شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے ملزم صاف بچ نکلتے تھے۔
چناں چہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کسی شریک ِجرم شخص کو رہائی کا لالچ دے کر کراؤن وِٹنیس بنالیا جائے تاکہ مرکزی ملزم کے خلاف اس کی گواہی کو بنیاد بناکر اسےسزا دی جا سکے۔اس قانونی اختراع پراس وقت بھی انصاف پسند حلقوں نے سوالات اٹھائے تھے اور اب بھی ایسی گواہی معتبر خیال نہیں کی جاتی کیوں کہ ذاتی فائدے کی غرض سے ملزم کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔
وعدہ معاف گواہ کی تعریف:
پاکستانی قانون میں فوج داری قانون میں وعدہ معاف گواہ کی کوئی تعریف متعیّن نہیں ہے۔ جب کسی فوج داری مقدمے میں واضح اورقابل اعتماد شہادتیں موجود نہ ہوں تو شریک ملزموں میں سے کسی ایک کو مقدمے کے اختتام پر رہائی دینے کے وعدے پر اقبالی بیان دینے پر تیار کیا جاتا ہے جس میں وہ وقوعہ میں ان افراد یا فرد کا نام اورکردار بیان کرتا ہے جس کی ایما پر اس نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ رہائی کے وعدے پر اقبالی بیان دینے والا یہ ملزم وعدہ معاف گواہ کہلاتا ہے۔
وعدہ معاف گواہ یا سہولت کار؟
دراصل استغاثہ نے بعض مقدمات قائم کرنےکے لیے ’’مخبروں‘‘کی خدمات حاصل کر رکھی ہوتی ہیں اور کیس ثابت کرنے کے لیے کبھی کبھار ایسے ملزمان میں سے کسی کو وعدہ معاف گواہ (Approver) بنانے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔
اس طرح وعدہ معاف گواہ درحقیقت سہولت کار ہوتا ہے جو کسی کمزور کیس کو کسی ملزم کے خلاف مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے صلے میں استغاثہ اسے متعلقہ مقدمے سے نکال دیتا ہے۔
تاہم یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ کو جو درحقیقت متعلقہ مقدمے میں ملزم ہوتا ہے۔ استغاثہ کی جانب سے اس کے ساتھ کیے گئے وعدے کے مطابق اعترافِ جرم کے باوجود مقدمے سے نکال دے یا اس کے اعترافِ جرم کی بنیاد پر اسے سزا سْنا دے۔ اس طرح وعدہ معاف گواہ کا مستقبل متعلقہ ٹرائل کورٹ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔