ایک نیوز: انسانی دماغ اور رویو ں پر تنہائی اور اندھیرے کے اثرات پر تجربات کیلئے غار میں تنہا 500 دن گزارنے والی خاتون نے عالمی ریکارڈ بنا لیا۔
تفصیلات کے مطابق 20 نومبر 2021 کو غار میں داخل ہوتے وقت اسپین کی کوہ پیما خاتون بیٹرز فلامینی کی عمر 48 سال تھی جبکہ غار سے نکلتے وقت ان کی عمر 50 سال ہو چکی تھی اور انہوں نے اپنی دو سالگراہیں انتہائی گہرے اور اندھیرے غار میں اکیلے گذاری تھیں۔
بیٹرز فلامینی کی سپورٹ ٹیم کا کہنا تھا کہ فلامینی نے تنہا غار میں 500 دن گزار کر عالمی ریکارڈ قائم کر لیا ہے، اس پورے عرصے کے دوران انتہائی قلیل دورانیے کیلئے وہ غار سے باہر آئیں تھیں لیکن اس دوران بھی انہیں ایک الگ خیمے میں رکھا گیا تھا۔
ٹیم کا کہنا تھا کہ فلامینی کو انسانی دماغ اور سرکیڈین ردھم (Circadian rhythm*) سے متعلق تجربات کیلئے غار میں رکھا گیا تھا اور ماہرین نے غار میں رکنے کے دوران ان کی جسم اور دماغ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا۔
تجربات کیلئے گہرے اندھیرے غار میں 500 دن تک فلامینی خود کو مصروف رکھنے کیلئے ورزش، مطالعے اور اونی ٹوپیاں بُننے جیسی مختلف مشقیں کیا کرتی تھیں۔
غار میں گذارے ہوئے وقت اور اپنے مشاہدات کو دستاویزی صورت دینے کیلئے انہیں دو گوپرو کیمرے دیے گئے تھے، جبکہ 60 کتابیں اور 1000 لیٹر پانی بھی فراہم کیا گیا تھا۔
بیٹرز فلامینی نے غار سے نکلنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پتہ ہی نہیں لگا کہ وقت کیسے گذر گیا، ابھی وہ باہر آنا نہیں چاہتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ غار میں جانے کے بعد میں نے وقت کو ٹریک کرنے کا چیلنج پورا کرنے کی کوشش کی لیکن 65 دن گزرنے کے بعد وقت کا ادراک کھو چکی تھی جس کے بعد دن گننا چھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ غار میں گزارے ہوئے وقت کے دوران مشکل دن بھی آئے جب غار پر مکھیوں نے حملہ کردیا تھیں اور کچھ بہت ہی اچھے دن بھی گذرے، جیسے آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ کا خواب کیا ہے یا آپ جان جائیں کہ آپ کیوں رو رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس پورے عرصے کے دوران اپنے حواس کے درمیان ربط بحال رکھنے کی کوشش کرتی تھی، اچھا کھانا اور خاموشی کا مزہ لینا، میں وہاں خود سے بہ آواز بلند بات نہیں کرتی تھی، بلکہ خاموشی کی زبان میں خودکلامی کرتی تھی اور اس سے لگتا تھا جیسے میں خود کے بارے میں ہی بہتر سے بہتر جاننے لگی ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران ٹیم کو بتایا گیا تھا کہ انہیں کسی بھی صورتحال میں مجھ سے رابطہ نہیں کرنا، چاہے میرے خاندان میں کسی کی موت ہو جائے، ’نو کمیونیکیشن مطلب نو کمیونیکیشن‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں اپنے احساسات اور ہوش حواس بحال رکھنا انتہائی اہم تھا، خوفزدہ ہونا بہت فطری عمل تھا لیکن اس خوف کو حواس پر طاری نہیں کرنا تھا کہ وہ پینک اٹیک بن کر آپ کو سن کردے۔
ٹیم کا کہنا تھا کہ فلامینی کے غار میں گذارے ہوئے 500 دنوں کے دوران ماہرین نفسیات، محققین اور غاروں کے ماہرین کے ایک گروپ کی جانب سے سوشل آئیسولیشن اور ڈس اوریئنٹیشن کے وقت میں دماغی پیٹرنز اور نیند پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کیا گیا۔