ایک نیوز: افغان طالبان کی سرپرستی میں القاعدہ کے مختلف رہنماؤں کی افغان حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیاں جاری ہیں۔ القاعدہ افغان طالبان حکومت کے ساتھ ”قریبی اورعلامتی“ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔
افغانستان میں القاعدہ کے رہنما طالبان حکومت کی سرپرستی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ القاعدہ کے اراکین نے طالبان حکومت میں سیکیورٹی اور انتظامی امور میں تقرریاں اور مشاورتی منصب حاصل کر رکھے ہیں۔
ولادیمیر وورونکوف کا کہنا تھا کہ القاعدہ کو ماہانہ فلاحی ادائیگیاں کی گئیں اوراس کے کچھ حصے جنگجوؤں کو بھی فراہم کئے گئے“۔ ”افغانستان کی صورتحال تیزی سے پیچیدہ ہوتی جارہی ہے اور دہشتگردوں کے ہاتھ میں اسلحہ و گولہ بارود آنے کے خدشات اب عملی شکل اختیار کر رہے ہیں“۔
امریکی سفیر لینڈا تھامس گرین فیلڈ کا کہنا تھا کہ ”طالبان کو اب یہ بتانا ہوگا افغانستان کی سرزمین کسی بھی دہشتگرد تنظیم کیلئے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے“۔
روسی نائب سفیر ماریا زبولوتسکایا کا کہنا ہے کہ ”مغربی ممالک کی جانب سے جو ہتھیار افغانستان لائے گئے اب وہ دہشتگردوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں“۔ سابق کمانڈر امریکی سنٹرل کمانڈ کا کہنا ہے کہ ”افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کو تاریخی غلطی کے طور پر دیکھا جائیگا جس وجہ سے عسکریت پسندوں کو ایک بار پھر اس ملک میں قدم جمانے کا موقع میسر آگیا ہے“۔
تاشقند کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ ”افغانستان میں موجوددہشتگرد علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے بدستور سنگین خطرہ ہیں“۔ ”افغان عبوری حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ملک میں موجود ان دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے مؤثر اقدامات کرے“۔ ” تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں محفوظ پناہ لئے ہوئے ہے اور وہاں سے ہی پاکستان پر حملے بھی کئے جا رہے ہیں“۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ ”افغانستان ایک بار پھر دہشتگردی کی آماجگاہ بن چکا ہے“۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ”وہ پاکستان کے اندر حملہ آور دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کریں“۔
سلامتی کونسل کا کہنا ہے کہ ”القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان کے اندر بڑھتے ہوئے حملے کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کر رہی ہے“۔