چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہباز گل کی ضمانت منظور کرلی

بؑغاوت پر اکسانے کا کیس،شہباز گل کی ضمانت منظور
کیپشن: بؑغاوت پر اکسانے کا کیس،شہباز گل کی ضمانت منظور

ایک نیوز نیوز: بغاوت پر اُکسانے کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے  تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کی ضمانت کے لیے دائر درخواست ضمانت منظور کرلی ۔
  شہباز گل کی ضمانت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں  ہوئی ۔ عدالت میں شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر نے ضمانت کی درخواست پر دلائل کا آغاز کیا ۔کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کر رہے  تھے۔ملزم شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پورا کیس ایک تقریر کے گرد گھومتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شہباز گِل سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے۔ یہ کیس بدنیتی اور سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شہباز گِل کا بیان غیر ذمہ دارانہ، غیر مناسب اور ہتک آمیز تھا۔
چیف جسٹس کا استفسار نے کیا کہ کیا ایف آئی آر میں لکھی ہوئی باتیں شہباز گل نے کہیں تھیں؟ ’کیا آپ آرمڈ فورسز کو سیاست میں ملوث کرنے کے بیان کو جسٹیفائی کر سکتے ہیں؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سیاسی جماعتوں کو آرمڈ فورسز کو سیاست میں دھکیلنا چاہیے؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ صرف تقریر نہیں ہے، درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز گل کی گفتگو کا کچھ حصہ نکال کر سیاق و سباق سے الگ کر دیا گیا۔
ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز گل نے اپنی گفتگو میں مسلم لیگ ن کی سینیئر قیادت کے نام لیے۔ انھوں نے کہا کہ مقدمہ میں بدنیتی سے اور منصوبے کے تحت یہ تمام باتیں نکال دی گئیں۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ شہباز گل نے اپنی گفتگو میں نو جگہوں پر ن لیگ کی لیڈرشپ کا نام لیا۔ انھوں نے کہا کہ کیوں گفتگو کے اس حصے کو نکال دیا گیا ؟ اصل میں یہ بدنیتی پر مبنی ہے۔
انھوں نے کہا کہ شہباز گل کی گفتگو میں آرمڈ فورسز کو کہیں پر بھی بے توقیری نہیں کی گئی ہے۔عدالت کے حکم پر درخواست گزار کے وکیل نے اپنے موکل شہباز گل کے انٹرویو کا سکرپٹ پڑھ کر سنایا۔
سکرپٹ سننے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو صرف تقریر نہیں ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ انتشار درخواست گزار کے تقریر سے نہیں پھیلا جتنا شکایت کنندہ کے بیان سے پھیلا۔
انھوں نے کہا کہ پوری تقریر میں کہیں پر بھی مسلح افواج پر تنقید یا انتشار نہیں پھیلایا گیا۔ ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ پورے سکرپٹ میں مریم صفدر، خواجہ آصف، جاوید لطیف کیپٹن صفدر و دیگر کا نام لیا گیا۔
شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ شہباز گل کی ساری گفتگو سٹریٹیجک میڈیا سیل سے متعلق تھی، جس پر چیف جسٹس کے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں نے نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا، اس تقریر کو دیکھ لیں۔
 پولیس کے اسپیشل پراسکیوٹر کاکہنا تھا کہ شہباز گل نے بات ایک نیوز چینل پر کہی تھی۔وہ نیوز چینل ملک کا ہر دوسرا شہری دیکھ رہا تھا ۔آرمڈ فورسز میں بھی  نیوز چینل دیکھا جاتا  ہے۔یہ بغاوت پر اکسانے کا الزام ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ شہباز گل نے کسی ایک کو کہا ہو کہ بغاوت کرو تو بتائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک کو نہیں، سب کو بغاوت پر اکسانے کا کہا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ قانون میں جو لکھا ہے اس کے مطابق بتائیں کیسے یہ الزام بنتا ہے؟ پولیس پراسیکیوٹر نے شہباز گل کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ شہباز گل نے اصل سمارٹ فون دیا نہ ہی ڈرائیور ملا۔ شہباز گل کے سیٹلائٹ فون سے اہم معلومات ملی ہے۔ شہباز گل کے سیٹلائٹ فون کی حتمی رپورٹ کا انتظار ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ثبوت بتائیں کہ شہباز گل نے کسی سپاہی سے رابطہ کیا ؟ تفتیش میں بتائیں یہ بات سامنے آئی یا نہیں آئی جس پر پولیس کے اسپییشل پراسیکیوٹر نے اعتراف کیا کہ  تفتیش میں شہباز گل کا کسی آرمڈ فورسز کے بندے سے رابطہ سامنے نہیں آیا۔ چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے سوالات کیے کہ کیا تفتیش میں سامنے آیا کہ شہباز گل نے کسی سولجر سے بغاوت کے لیے رابطہ کیا؟ ٹرائل کورٹ نے ایک کے سوا آپ کی باقی سب دفعات ختم کیں۔ کیا آپ نے کبھی ٹرائل کورٹ کے اُس آرڈر کو چیلنج کیا؟۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ کے آرڈر کو چیلنج کرنے کی ضرورت نہیں تھی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈر آپ کے خلاف جائے تو چیلنج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ بغاوت کی دفعات پر نہ جائیں، یہ کلونیل لاز ہیں۔یہ بینچ بغاوت کو نہیں مانتا، اس کے علاوہ دلائل دیں۔ بغاوت کے کیس کو تو یہ عدالت مانتی ہی نہیں۔ یہ بتائیں چیف کمشنر ، وزارت داخلہ کی بغاوت کا کیس بنانے کی منظوری کہاں ہے؟
پراسیکیوٹر نے عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تقریر سے اشتعال دلانا بغاوت پر اُکسانے کے مترادف ہے۔ اصل میں بغاوت کا ہو جانا ضروری نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بغاوت پر نہ آئیں،یہاں جس کی جو مرضی آئے دوسرے کو غدار کہتا ہے ۔ اس کورٹ نے کہہ دیا غیر ذمے دارانہ بیان تھا، اس کے علاوہ بتائیں؟
 چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے   نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد بغاوت کے مقدمے میں شہباز گل کو رہا کرنے کا حکم  دیتے ہوئے 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ 
یادرہے 30 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گِل کی ضمانت کی درخواست خارج کر دی تھی۔بغاوت پر اُکسانے کے مقدمے میں اپنے تفصیلی فیصلے میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے کہا تھا کہ بادی النظر میں شہباز گِل ناقابل ضمانت جرم کرنے کے مرتکب ہوئے۔عدالت نے کہا تھا کہ ’شہباز گِل کا بیان عوامی مفاد میں ہے نہ ہی ملکی سالمیت کے حق میں۔‘