ایک نیوز: 1965 ء کی جنگ میں پاک فوج کے ہاتھوں عبرتناک شکست کے بعد بھارت نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے سیاسی فوجی حکمت عملی کو اپنایا تاکہ پاکستان کو تقسیم کردیا جائے۔ یوں بھارت نے نوجوان بنگالیوں کی ذہن سازی کر کے انہیں مغربی پاکستان کیخلاف اُکسانا شروع کردیا۔
اس مقصد کے حصول کیلئے مکتی باہنی جیسی دہشتگرد تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جنہیں بھارتی خفیہ ایجنسی “ را “ کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔
21ستمبر1968کو بھارتی خفیہ ایجنسی ”را ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کا سربراہ رمیشورناتھ کاؤ تھا جو مشرقی پاکستان میں نام نہاد جنگ ِ آزادی کو بھڑکانے اور اس کی مکمل حمایت میں پیش پیش تھا۔
بھارتی ایسٹرن کمانڈ کا میجر جنرل جیکب جو کہ ایک یہودی تھا، اُس نے مکتی باہنی کے دہشتگردوں کی تربیت سے لے کر مشرقی پاکستان کے گلی کوچوں میں محب وطن پاکستانیوں کو شہید کرنے کے لئے گوریلا کارروائیوں کی نگرانی کی۔
مکتی باہنی کے دہشتگردوں نے پاکستان آرمی اورمحب وطن بنگالیوں کا اتحاد توڑنے اور پاکستان آرمی کو کمزور کرنے کے لئے را کے ترتیب دیے ہوئے منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے لاکھوں محب وطن پاکستانیوں کو شہید کیا جن میں بڑی تعداد میں بنگالی بھی شامل تھے۔
مکتی باہنی کی ان سفاکانہ کارروائیوں کا الزام پاکستان آرمی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت میں لگایا جاتا ہے۔ مکتی باہنی میں شامل ایک بڑی تعداد ہندو بنگالیوں کی تھی۔ جنہوں نے بھارت کی مسلم دشمن سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے مشرقی پاکستان میں لاتعداد مسلمانوں کو شہید کیا۔
مکتی باہنی کی سفاکی کا ثبوت مشرقی پاکستان میں تعینات سگنل کور کے لیفٹیننٹ افضل تھے جو کہ کمیونیکیشن لائن کی مرمت کے دوران شہید کر دیے گئے اور اُن کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تیستہ دریا میں بہا دیے۔
مکتی باہنی کی تشکیل اور 1971ء کی جنگ میں گوریلا کارروائیوں کے پیچھے بھارتی حکومت کی جانب سے مکتی باہنی کے دہشتگردوں کو مکمل فوجی اور انٹیلی جنس مدد فراہم کرنے کی تاریخی حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
اس مقصد کے لئے بھارتی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کولکتہ میں رمیشورناتھ کاؤ کی زیر نگرانی کنٹرول ہیڈ کوارٹرز قائم کیا گیا۔ مکتی باہنی کے دہشتگردوں کی ٹریننگ کیلئے 6 مختلف ٹریننگ سنٹرز تشکیل دیئے گئے اور ہر ٹریننگ سنٹر بھارتی بریگیڈئر کے زیر کمان تھا۔
”مورتی کیمپ“ بھارت کے علاقے مغربی بنگال میں قائم تھا جو بریگیڈئر جوشی کی زیر نگرانی تھا۔ ”رائے گنج“ بھی مغربی بنگال میں قائم تھا جو بریگیڈیئر پریم سنگھ کی زیرنگرانی کام کرتا تھا۔
”چا کولیا ٹریننگ کیمپ“ بھارتی ریاست بہار میں قائم تھا جو بریگیڈئر این اے نائیک کی زیر نگرانی تھا۔ ”دیب تمور“ بھارت کے علاقے ترئی پورہ میں قائم تھا جو بریگیڈئر شاہ بیگ سنگھ کی زیر نگرانی کام کرتا تھا۔
”ماسیپور“ بھارتی ریاست آسام میں قائم تھا جو بریگیڈئربی واڈیا کی زیرنگرانی کام کرتا تھا جبکہ ”تورا کیمپ“ بھارتی علاقے میگھالیہ میں قائم تھا جو بریگیڈئر سانت سنگھ کی زیرنگرانی کام کرتا تھا۔
ہر ٹریننگ سنٹر میں 500 مکتی باہنی دہشتگردوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ ان میں تمام 6کیمپوں میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب مکتی باہنی کے دہشتگردوں کو تربیت فراہم کی گئی۔
اس کے علاوہ 800 مکتی باہنی کے افسران کو باقاعدہ طور پر ”انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون“ میں تربیت فراہم کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ 600 مکتی باہنی کے دہشتگردوں کو مشرقی پاکستان کی مختلف بندرگاہوں پر حملے کا ٹاسک بھی دیا گیا۔
بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران سول کپڑوں میں ان مکتی باہنی دہشتگردوں کے ساتھ آپریشنز میں شریک رہتے اور انہیں ہدایات دیتے۔
مکتی باہنی کے دہشتگردوں کے ان حملوں کے نتیجے میں مشرقی و مغربی پاکستان کے ہزاروں بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے شہید ہوئے۔