لوگ گیٹ پھلانگ رہے، حکومت بےبس، آئین پر کون عمل کروائے گا؟چیف جسٹس

پنجاب میں انتخابات: الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست، سماعت آج ہوگی
کیپشن: Elections in Punjab: Election Commission's review petition, hearing will be held today

ایک نیوز:سپریم کورٹ میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی کیلئے دائرالیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں اور حکومت بےبس نظر آرہی ہے۔ اس صورتحال میں آئین پر عمل کون کروائے گا۔ چیف جسٹس نے ایک مرتبہ پھر دوران سماعت مذاکرات کے حوالے سے استفسار کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کہا کہ مذاکرات شروع کیوں نہیں ہورہے ہیں؟

سپریم کورٹ میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی کیلئے دائر الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نےکیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر 3 رکنی خصوصی بینچ کا حصہ ہیں۔الیکشن کمیشن کے حکام سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

https://www.pnntv.pk/uploads/digital_news/2023-05-15/news-1684134619-8372.mp4

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نےچار اپریل کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائرکی تھی۔ سپریم کورٹ نے چودہ مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔

سیکرٹری بار مقتدر شاہ سپریم کورٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ بار اور وکلاء عدالت کے ساتھ ہیں۔ عدلیہ کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا کہ پنجاب اور کے پی گورنمنٹ سے کون آیا ہے؟ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا وسائل دیں انتخابات کروادیں گے۔ اب الیکشن کمیشن نے پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔

ڈاکٹرافتخار درانی نے کہا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود پی ڈی ایم کے جتھے ریڈ زون میں داخل ہو چکے ہیں۔ نہ کوئی شیلنگ ، نہ فائرنگ ثابت ہو گیا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے امپورٹڈ حکمرانوں کے کہنے پر صرف تحریک انصاف کا پر امن احتجاج روکنے کیلئے دفعہ نافذ کی۔ قانون کا یہ دہرا معیار ریاست کی رٹ کو شدید نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے پہلے یہ مؤقف اپنایا ہی نہیں تھا۔ جو نکات پہلے نہیں اٹھائے کیا وہ اب اٹھائے جاسکتے ہیں؟ مناسب ہوگا یہ نکات کسی اور کو اٹھانے دیں۔ عدالتی دائرہ اختیار کا نقطہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں اٹھایا تھا۔ وفاقی حکومت یہ نقطہ اٹھا سکتی تھی لیکن انہوں نے نظر ثانی دائر نہیں کی۔ الیکشن کمیشن کی درخواست میں اچھے نکات ہیں۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس کل اہم کیس کی سماعت ہے کیوں نہ کیس اگلے ہفتے منگل تک ملتوی کریں؟

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ نظرثانی درخواست میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کا مؤقف سننا چاہتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر کے سنیں گے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کریں گے۔عدالتی حکم پر عملدرآمد کرایا جائے۔ عدالت نے جو حکم دیا ہے وہ حتمی ہے۔ بعض نکات غور طلب ہیں ان پر فیصلہ کریں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں ہوتا۔ آئینی مقدمات میں دائرہ اختیار محدود نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ بھی مدنظر رکھیں گے کہ نظرثانی میں نئے نکات نہیں اٹھائے جا سکتے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ 14 مئی گزر چکا ہے،آئین کا انتقال ہو چکا ہے۔ نگران حکومتیں اب غیر آئینی ہو چکی ہیں۔ عدالت اپنے فیصلے پر عمل کروائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ فیصلہ حتمی ہو جائے پھر عمل درآمد کروائیں گے۔ ادارے اس وقت شدید خطرے کے اندر ہیں۔ میرا مشورہ ہے پرامن ماحول کےلئے کردار ادا کریں۔ دیکھیں اس وقت سپریم کورٹ کے باہر کیا صورتحال ہے۔ باہر جو ہو رہا ہے، کون آئین پر عمل کرائے گا۔ آج دیکھ لیں، لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، وفاقی حکومت مدد فراہم کررہی ہے۔ آئین ہی جمہوریت کی بنیاد ہے، ہم ملک میں امن چاہتے ہیں۔ مشکل حالات میں اللہ پاک صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ ملکی اداروں اور اثاثوں کو جلایا جا رہا ہے، چار پانچ دن سے جو ہو رہا ہے اسے بھی دیکھیں۔ اس کے باوجود بھی ہم اپنا کام کررہے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مذاکرات کیوں شروع نہیں ہو رہے؟ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو چاہئے مذاکرات کا عمل دوبارہ دیکھیں۔ چیف جسٹس نے پنجاب، کے پی کے ایڈوکیٹ جنرلز کو روسٹرم پر بلالیا۔ 

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل کیلئے کتنا وقت چاہیے۔؟ مجھے دلائل کے لئے تین سےچار گھنٹے چاہئیں۔ 

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ممکن ہو تو آئندہ پیر کو سماعت رکھی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی استدعا مسترد کرتے ہیں سماعت آئندہ منگل کو ہوگی۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت آئندہ منگل 23 مئی تک ملتوی کردی۔

قبل ازیں اس حوالے سےوزیراعظم شہباز شریف سے قانونی ٹیم نے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں وزیرقانون اور اٹارنی جنرل نے شرکت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں سپریم کورٹ کے پنجاب میں انتخابات سے متعلق آج کی سماعت پر مشاورت کی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے 4 اپریل کے حکم پر نظر ثانی دائر کررکھی ہے جس میں موئقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق سپریم کورٹ انتخابات کی تاریخ کا حکم نہیں دے سکتی، عدالت نے تاریخ دیکر اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

اس سے قبل ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے سے متعلق سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے مذاکراتی عمل کیلئے کوئی ڈائریکشن نہیں دی، پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم نامہ برقرار رہے گا۔

حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو سراہتی ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابات ایک دن کرانے پر متفق ہوتی ہیں تو یہ قابلِ ستائش عمل ہے۔ عدالت واضح کرتی ہے کہ مذاکراتی عمل میں عدالت کا کوئی کردار نہیں۔

دریں اثنا سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات نہیں ہوسکے، 4 اپریل کو سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ پی ڈی ایم نے  پیر کے روز سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کا اعلان بھی کر رکھا ہے اور ملک بھر سے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی ہے، پی ڈی ایم کے اس احتجاج میں ن لیگ سمیت دیگر اتحادی جماعتیں بھی شرکت کریں گی۔