ایک نیوز: بھارت میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کے معاملے پر سپریم کورٹ کا لارجربینچ تشکیل دے گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے ملک ہم جنس پرستوں کی شادی کوقانونی تسلیم کرنے کی درخواستیں 5 ججز پرمشتمل لارجربینچ کو بھجوادی ہیں جس کی آئندہ ماہ سماعت کی جائے گی۔ بھارت میں ہم جنس پرستی پر10 سال قید کی سزامقررکی گئی تھی لیکن سیکولرہونے کے دعویداربھارت میں اس سیکشن کوکالعدم قراردلوانے کیلئے3 دہائیوں سے زائد عرصے سے مہم جاری ہے۔ 2009 میں نئی دہلی کی عدالت نےہم جنس پرستی ناقابل سزاجرم قراردی تھی جسے سپریم کورٹ نے 2013 میں کالعدم قراردیتے ہوئے کہا آئین میں تبدیلی صرف بذریعہ پارلیمنٹ ہوسکتی ہے۔ 2018 میں اس میں اہم پیشرفت دیکھنے میں آئی جب بھارتی سپریم کورٹ نے 5 رکنی بینچ نے طویل سماعت کے بعد سیکشن 377 منسوخ کردیا تھا۔
اس اقدام سے بھارت میں ہم جنس پرستی پرسزا ختم ہونے سے یہ قابل گرفت جرم نہیں رہا اورایسی شادیوں کو قانونی قراردینے کیلئے مہم میں بھی تیزی دیکھی گئی۔ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے کئی درخواستیں موصول ہوئیں جس کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے بھی موقف جمع کروایا گیا۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ہم جنس پرستوں کی شادی کوقانونی حیثیت دینے کے خلاف ہے اور اس پرقانون سازی صرف پارلیمنٹ میں ہی ہوسکتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی فیصلہ دینا عدالت کےدائرہ اختیارمیں نہیں آتا۔ ’ہندومت میں بھی دیگرمذاہب کی طرح خاندان بائیولوجیکل مرد اورعورت پرمشتمل ہوتا ہے لیکن ہم جنس پرستوں کی شادیاں قانونی قراردینےسے خاندانی نظام تباہ ہو جائےگا۔‘
اس موقف کے بعد معاملہ 5 رکنی لارجر بینچ کو بھجوایا گیا ہے۔عدالت نے اگرہم جنس پرستوں کی شادی قانونی قراردے دی تو براعظم ایشیا میں تائیوان کے بعد بھارت ایسا کرنے والا دوسرا ملک بن جائے گا۔اعدادوشمارکے مطابق بھارت میں اب تک 3 لاکھ سے زائد ہم جنس پرست جوڑے شادی کرچکے ہیں مگران کی سماجی حیثیت پربہت سے سوالیہ نشان ہیں۔