اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کیخلاف توشہ خانہ کیس ٹرائل پر حکم امتناعی میں 20 جون تک توسیع کردی ۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کیس کی مزید سماعت 20جون تک ملتوی کردی ۔
چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھاکہ برطانیہ میں وکلاء کی عدالتوں میں پہنچنے کیلئے دوڑیں لگی ہوتی ہیں۔کوئی وکیل لندن سے مانچسٹر اور وہاں سے برمنگھم جا رہا ہوتا ہے۔برطانیہ میں چھ سات ماہ میں ٹرائل مکمل ہونے کو بھی تاخیر کہا جاتا ہے۔ہمارے ہاں تو کرمنل ٹرائلز بہت تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔پنجاب میں تو قتل کے مقدمہ کا گواہ تین سال بعد گواہی دینے آ رہا ہوتا ہے۔تین سال بعد وقوعہ مَن و عَن یاد رکھنا انسانی دماغ کیلئے تو ممکن نہیں۔نور مقدم اور ایک دو اور مخصوص کیسز میں ٹرائل جلد مکمل ہوا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے سماعت منگل تک ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کادلائل میں کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں مصروفیات کے باعث یہاں دلائل مکمل نہیں کرسکا ۔پیر کو احتساب عدالت میں ضمانت کا ایک کیس لگا ہوا ہے ۔منگل کو سماعت رکھ لیں تو میرے لئے کچھ آسانی ہو جائے گی ۔
وکیل امجد پرویز نے استدعا کہعدالت شواہد ریکارڈ کرنے کی اجازت دے ۔
وکیل الیکشن کمیشن کادلائل میں کہنا تھا کہ شواہد مکمل ہوجائیں تواس درخواست پر سماعت مکمل ہونے تک ٹرائل کورٹ کو فیصلہ سے روکا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ خواجہ صاحب اس کیس سے ہٹ کر ایک نکتہ مجھے بتائیں۔پرانے وقتوں میں ٹرائل کورٹس میں ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر چلتے تھے۔کیا وہ رولز کے مطابق تھا یا صرف پریکٹس ہی ہوتی تھی۔آج کل تو کام اتنا زیادہ ہے کہ ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ایک بار فوجداری ٹرائل شروع ہو جائے تو پھر التواء کی گنجائش موجود نہیں۔ہم اسلام آباد کی عدالتوں کیلئے کیس مینجمنٹ رولز پر کام کر رہے ہیں۔کیا اُس میں یہ چیز ڈالی جا سکتی ہے؟ اسلام آباد میں یہ صوبوں کی نسبت یہ کام باآسانی ہو سکتا ہے۔