نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ہے: چیف جسٹس

 نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ہے: چیف جسٹس

ایک نیوز:  پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اور ریو آف ججمنٹ کیس کی سماعت کل گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ  نے سماعت کی۔جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔سماعت کے آغاز پر کمرہ عدالت میں چڑیوں کی چہچہاتے پر چیف جسٹس نےاٹارنی جنرل کو اشارہ کیا۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ چڑیا شاید آپ کیلئے پیغام لائی ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ امید ہے پیغام اچھا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ زمانہ بھی تھا جب کبوتروں کے زریعے پیغام جاتے تھے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل شروع کرتے ہوئےبھارتی قوانین کا حوالہ دیا۔   اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1973 کے آئین میں حقوق کی انفورسمنٹ کے لیے آرٹیکل 184 تین کے اوریجنل اختیارات کو بڑھایا گیا ہے۔آرٹیکل 184 تین کے تحت پہلہ فیصلہ منظور الہیٰ کیس میں آیا ،منظور الہیٰ کے بھائیوں نے سندھ اور بلوچستان میں بھی درخواستیں دائر کیں۔گرفتاری کے بعد منظور الہی کو قبائلی علاقہ میں لے جایا گیا، درخواستوں میں منظور الہیٰ نے اپنی بازیابی کی استدعا کی۔فیصلہ پڑھ کر بتاو گا کہ گزشتہ سالوں میں 184(3) کا دائرہ اختیار کیسے بڑھتا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نےریمارکس دیے کہ کہ آپ سے یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ 184 (3) کے ساتھ نظر ثانی کا دائرہ اختیار کیوں اور کیسے بڑھنا چاہیے؟ آپ درخواست گزار کا موقف بھی زرا سمجھیں۔درخواست گزار کو اس پر اعتراض نہیں کہ آپ نے کیوں کیا۔درخواست گزار کہتے ہیں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سے کریں ۔عدالت بھی مانتی ہے کہ دائرہ کار وسیع ہوں لیکن اس میں وجوہات بھی تو شامل کریں ورنہ تو آپ عدالت کے معاملات کو ڈسٹرب ہی کریں گے۔مجھے سمجھنے میں دشواری ہے کے 184 (3) میں فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کو دیگر فیصلوں سے فرق کیسے کیا گیا؟ 

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ میرے لیے تو  سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کا پیمانہ ایک ہے، آپ جو قانون لے کر آئے ہیں اس میں الگ الگ پیمانہ لائے ہیں۔جب سب فیصلوں پر نظر ثانی میں سبجیکٹ میٹر ایک ہی ہے تو  سکوپ الگ کیسے ہوسکتا ہے؟ میں نے یہ پوائنٹس نوٹ کر لیے ہیں ان پر بھی معاونت کروں گا۔

اٹارنی جنرل نےوطن پارٹی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں فیصلوں کے حوالوں کے بعد سپریم کورٹ رولز پر بھی آو گا۔وقت کے ساتھ 184 (3) کا ہی دائرہ کار وسیع ہوا اس پر نظر ثانی کا بھی ہونا چاہیے تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ چیزوں کو کاٹ کر الگ کیسے کر سکتے ہیں؟ کہ اس کی نوعیت الگ ہے دوسرے کی الگ ہے؟ آخر میں کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کہلائے گا۔نظر ثانی میں عدالت کے سامنے معاملہ دو فریقین کے تنازع کا نہیں ہوتا ہے۔نظر ثانی میں عدالت کے سامنے زیرغور معاملہ اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے مختلف ادوار میں 184(3) کے دائرہ اختیار کو مختلف اندار میں سمجھا ہے۔امریکی سپریم کورٹ نے بھی اس کو مختلف ادوار میں الگ طرح سے پرکھاہوسکتا ہے آج سے دو ماہ،6 سال یا 20 سال بعد یہ عدالت بھی 184(3) کے اختیار کو اور طرح سے سمجھے۔ایسے میں آپ کے اس ایکٹ کا مستقبل کیا ہوگا؟

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیارات کو بڑھانا غلط بات نہیں ہے۔ہم مانتے ہیں وقت کے ساتھ رولز بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں لیکن مگر نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ہے۔ چیف جسٹس پاکستان  نے کہا کہ اگر نظرثانی رولز کو تبدیل کرنا بھی تھا تو آئینی ترمیم ہونی چاہیے تھی۔حکومت ازخود نوٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا دائرہ اختیار وسیع کرنا چاہتی ہے تو موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جاسکتا ہے۔یہ حکومت کے جلد بازی میں کی گئی قانون سازی ہے،ہمیں حکومت کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں،اپیل اور نظرثانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ نے  نظرثانی کو دوبارہ سماعت جیسا بنانا ہے تو آپ ضرور کریں اس کے لیے آپ درست قانونی راستہ اختیار کریں۔   اٹارنی جنرل نے کہا میں یہ بھی بتا دوں گا کہ نظرثانی کا ارتقاء کیسے ہوا جس پر چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ گڈ یعنی اب ہم نظر ثانی کے ارتقاء پر آپ کو سنیں گے۔