ایک نیوز : نئی تحقیق کے مطابق وہ ملازمین جو مصنوعی ذہانت کے ساتھ کام کرتے ہیں ان کے تنہائی اور بے خوابی میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
تحقیق میں محققین کو معلوم ہوا ہے کہ مارکیٹنگ، فنانس اور اشیاء سازی کی صنعتوں میں عمومی طور پر استعمال کی جانے والی مصنوعی ذہانت ان کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین کی نجی زندگیوں پر نقصان دہ اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف جورجیا کے محققین کی رہنمائی میں کام کرنے والی ٹیم نے امریکا، تائیوان، انڈونیشیا اور ملائشیا میں چار تجربات کیے۔
ایک تحقیق میں تائیوانی بائیو میڈیکل کمپنی میں مصنوعی ذہانے کے سسٹمز کے ساتھ کام کرنے والے 166 انجینئروں کا تین ہفتوں تک ان کی تنہائی کے احساس، قریبی افراد سے علیحدہ ہوجانے کے خوف اور معاشرے کا حصہ ہونے کے احساس کے متعلق سروے کیا گیا۔
شرکاء کے ساتھ کام کرنے والوں نے ان کے مددگار رویے اور خاندان والوں نے ان کی بے خوابی اور کام کے بعد شراب نوشی کے متعلق بتایا۔
تجزیے میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ ملازمین جو زیادہ تر مصنوعی ذہانت کے سسٹمز کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں ان کے تنہائی، بے خوابی اور کام کے بعد شراب نوشی میں اضافے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔
ٹیم کے مطابق تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ ملازمین اپنے ساتھی ملازمین کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔
امریکا، انڈونیشیا اور ملائشیا میں، پراپرٹی مییجمنٹ کمپنیوں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ملازمین پر کیے جانے والے دیگر تجربات میں بھی اس ہی طرح کے نتائج سامنے آئے۔
تحقیق کے سربراہ محقق پوک مین ٹینگ ایک انویسٹمنٹ بینک میں کام کرتے تھے، جہاں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے اس مسئلے پر ان کی توجہ گئی۔
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت میں فوری جدت نیا صنعتی انقلاب بپا کر رہی ہے جو کام کی جگہ کی شکل بدل رہا ہے جس کے متعدد فوائد ہیں لیکن ساتھ ہی ملازمین کو کئی ذہنی اور جسمانی خطرات بھی ہوسکتے ہیں۔