ویب ڈیسک: حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سابق صدر عارف علوی، بانی پی ٹی آئی اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کا کیس چلایا جائےگا۔
آرٹیکل 6کیا ہوتا ہے؟
آرٹیکل چھ کے تحت سپریم کورٹ میں براہ راست درخواست دائر نہیں جا سکتی ہے، حکومت کو پہلے سیشن کورٹ میں جانا ہوگا۔
آئین کے آرٹیکل 6کے تحت آئین کو توڑنے اور ایسا کرنیوالےکی مدد کرنیوالےتمام افراد ریاست سے ’سنگین بغاوت‘ کے اس جرم میں برابر کے شریک تصور کیے جاتے ہیں، جنکی سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کی ہوئی ہے۔
آئین کی شق چھ پر عمل کیلئےپارلیمنٹ نے جو قانون منظور کر رکھا ہے اسکے مطابق سنگین بغاوت کا یہ مقدمہ سپریم کورٹ نہیں بلکہ سیشن عدالت سننے کی مجاز ہوتی ہے،اگر کسی فرد یا افراد کیخلاف آئین کی شق 6کے تحت کارروائی کرنا مقصود ہو تو اسکے خلاف مقدمے یا شکایت درج کروانے کا اختیار صرف وفاقی حکومت ہی کو حاصل ہے۔
آئین میں آرٹیکل 6 کی تین ضمنی دفعات ہیں
کوئی فرد جو آئین کو توڑے یا ایسا کرنے کی کوشش یا سازش کرے، طاقت کے ذریعے، طاقت دکھا کر یا کسی دوسرے غیر آئینی طریقے سے، وہ سنگین بغاوت کا مجرم ہوگا۔
ایسا فرد جو مدد یا تعاون کرے اس اقدام کی جو شق نمبر ایک میں درج ہے، وہ بھی سنگین بغاوت کا مجرم ہو گا۔
مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ اس جرم میں ملوث افراد کیخلاف قانون کے تحت سزا تجویز کرے گی۔
14 اگست 1973کو دستور کی منظوری کے بعد اس پر عمل کیلئےقانونی ڈھانچے کی تشکیل بھی فوری طور پر شروع کر دی گئی تھی اور اس وقت کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد 26ستمبر کو صدر مملکت نے سنگین بغاوت کی سزا کے قانون پر دستخط بھی کردئیےتھے۔
آئین کی اس شق پر عمل کرنے کیلئےبنائے گئے ’سنگین بغاوت‘ کی سزا کا قانون 1973کی بھی 3 ذیلی شقیں ہیں۔
اس قانون کا نام ’سنگین بغاوت کی سزا کا قانون 1973‘ ہو گا۔
ایسا فرد جو اس وقت ملک میں نافذ آئین کو توڑنے یا ایسا کرنیکی کوشش یا سازش کرنے کے جرم کا مرتکب ہو اسکی سزا عمر قید یا موت ہوگی، یہاں پر آئین سے مراد30 مارچ 1956 کے بعد سے لاگو ہونے والے تمام آئین ہیں۔
کوئی عدالت اس قانون کے تحت اس وقت تک کارروائی نہیں کر سکتی ہے جب تک اس جرم کے واقعہ ہونے کی تحریری شکایت کسی ایسے فرد کیجانب سے متعلقہ سیشن عدالت میں دائر نہ کی جائے جسے وفاقی حکومت نے ایسا کرنے کے لیے اختیار دیا ہو۔